سوال:
براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا اسلام میں سفارش کرنے کی گنجائش ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کی سفارش فرمائی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اسلام میں سفارش کرنا جائز ہے، بشرطیکہ جس کی سفارش کی جائے اس کا مطالبہ حق اور جائز ہو اور سفارش کرنے والا سفارش کرنے پر رشوت نہ لے، بلکہ محض اللہ کی رضا کے لیے سفارش کرے، نیز یہ سفارش کسی ایسے ثابت شدہ جرم کی معافی کے لیے نہ ہو، جس کی سزا شریعت میں متعین و مقرر ہے۔
مذکورہ بالا شرائط کے مطابق سفارش کرنا جائز ہونے کے ساتھ ساتھ باعث اجر و ثواب بھی ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَنْ يَّشْفَعْ شَفَٰعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُۥ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَٰعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُۥ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ مُّقِيتًا (النساء، الآية: 85 )
ترجمہ: "جو شخص کوئی اچھی سفارش کرتا ہے، اس کو اس میں سے حصہ ملتا ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرتا ہے اسے اس برائی میں سے حصہ ملتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے"۔
مفتی شفیعؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "جو شخص کسی شخص کے جائز حق اور جائز کام کے لئے جائز طریقہ پر سفارش کرے تو اس کو ثواب کا حصہ ملے گا اور اسی طرح جو کسی ناجائز کام کے لئے یا ناجائز طریقہ پر سفارش کرے گا اس کو عذاب کا حصہ ملے گا"۔ (معارف القرآن: 497/2)
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سفارش کردیا کرو، اس سے تمھیں ثواب ملے گا"۔ ( صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1432 )
خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جائز کام کی سفارش کرنا ثابت ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: "حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے جب اپنے شوہر حضرت مغیث رضی اللہ عنہ سے طلاق لے لی تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اگر تم مغیث کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیتیں اور اس کے پاس رہ جاتیں تو بہتر ہوتا، حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا آپ اس کا حکم دیتے ہیں؟ (تب تو ماننا پڑے گا) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: حکم نہیں ہے، بلکہ میں تو صرف سفارش کے طور پر کہتا ہوں، حضرت بریرہ نے عرض کیا: مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5283)
لہذا مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق کسی جائز کام کی سفارش کرنا نہ صرف جائز، بلکہ مستحسن اور باعث اجر و ثواب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
صحیح البخاری: (113/2، رقم الحديث: 1432، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا موسى بن إسماعيل: حدثنا عبد الواحد: حدثنا أبو بردة بن عبد الله بن أبي بردة: حدثنا أبو بردة بن أبي موسى، عن أبيه ﵁ قال: «كان رسول الله ﷺ إذا جاءه السائل أو طلبت إليه حاجة قال: اشفعوا تؤجروا، ويقضي الله على لسان نبيه ﷺ ما شاء.»
فيه أيضا: (48/7، رقم الحديث: 5283، ط: دار طوق النجاة )
حدثنا محمد : أخبرنا عبد الوهاب: حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس «أن زوج بريرة كان عبدا يقال له مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي ﷺ لعباس: يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثا؟، فقال النبي ﷺ: لو راجعته. قالت: يا رسول الله، تأمرني؟ قال: إنما أنا أشفع، قالت: لا حاجة لي فيه.»
تفسير الكشاف: (543/1، ط: دار الريان للتراث القاهرة)
الشفاعة الحسنة: هي التي روعي بها حق مسلم، ودفع بها عنه شر أو جلب إليه خير. وابتغى بها وجه الله ولم تؤخذ عليها رشوة، وكانت في أمر جائز لا في حد من حدود الله ولا في حق من الحقوق.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (131/26، ط: دار السلاسل
الشفاعة الحسنة: وهي: أن يشفع الشفيع لإزالة ضرر أو رفع مظلمة عن مظلوم، أو جر منفعة إلى مستحق ليس في جرها ضرر ولا ضرار، فهذه مرغوب فيها مأمور بها، قال الله تعالى: {وتعاونوا على البر والتقوى}.وللشفيع نصيب في
أجرها وثوابها قال الله تعالى: {من يشفع شفاعة حسنة يكن له نصيب منها}ويندرج فيها دعاء المسلم لأخيه المسلم عن ظهر الغيب.
الشفاعة السيئة هي: أن يشفع في إسقاط حد بعد بلوغه السلطان أو هضم حق أو إعطائه لغير مستحقه، وهو منهي عنه لأنه تعاون على الإثم والعدوان. قال تعالى: {ولا تعاونوا على الإثم والعدوان}وللشفيع في هذا كفل من الإثم. قال تعالى: {ومن يشفع شفاعة سيئة يكن له كفل منها. . .} الآية. والضابط العام: أن الشفاعة الحسنة هي: ما كانت فيما استحسنه الشرع، والسيئة فيما كرهه وحرمه.
معارف القرآن: (497/2، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی )
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی