سوال:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ! عرض گزارش یہ ہے کہ میرے اور شوہر کے درمیان تعلقات خراب ہیں، ہمارے درمیان جب بھی لڑائی ہوتی ہے تو میرے شوہر مجھ سے کہتے ہیں کہ جاؤ ماں کے گھر 'میری طرف سےتم آزاد ہو' اور یہ الفاظ انہوں نے مجھ سے بیس سے زائد مرتبہ کہے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، براہ کرم آپ صحیح رہنمائی فرمائیں کہ "جاؤ ماں کے گھر 'میری طرف سےتم آزاد ہو" کہنے سے اور صرف میری طرف سے تم آزاد ہو کہنے سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اور اب میرے لیے کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا "میری طرف سے تم آزاد ہو" ہمارے عرف میں طلاق کے لیے صریح بن چکا ہے، لہذا اس جملہ سے بلا نیت بھی طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے، خاص طور پر جب لڑائی جھگڑے کے موقع پر یہ جملہ کہا جائے۔
پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً آپ کے شوہر نے مختلف مواقع پر لڑائی کے دوران مذکورہ الفاظ (جاؤ ماں کے گھر، میری طرف سے تم آزاد ہو) دو مرتبہ سے زیادہ کہے ہیں تو اس سے تین طلاقیں واقع ہو کرحرمت مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے، اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ تین طلاق کے بعد دوبارہ نکاح کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرے اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہوجائے تو پھر وہ عورت عدت گزار کر اگر اپنے سابقہ شوہر نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (299/3، ط: دار الفكر)
بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اه وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق.
و فیه ایضاً: (252/3، ط: دار الفكر)
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية
امداد الاحکام: (445/2، ط: مکتبه دار العلوم کراتشي)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی