سوال:
کیا ڈرائیونگ اسکول میں اپنے استاذ (جو ہمیں گاری سکھاتے ہیں) کو کچھ پیسے دے سکتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اچھی طرح سکھائیں، جس سے ہمیں ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنے میں مدد مل سکے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں استاذ کو اچھی ڈرائیونگ سکھانے کی غرض سے پیسے دینا درست نہیں ہے، کیونکہ استاذ کے فرائضِ منصبی میں یہ بات داخل ہے کہ وہ دوران تعلیم ہر طالب علم کے ساتھ اچھی طرح سے محنت کرے، جبکہ آپ کی طرف سے اچھی ڈرائیونگ سکھانے کی غرض سے پیسے دینے کی وجہ سے باقی طلبہ کی بنسبت وہ آپ پر زیادہ محنت کریں گے، جس کے نتیجے میں باقی طلبہ کی حق تلفی ہونے کے ساتھ ساتھ جو کام ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے، اس پر مزید پیسے بھی دینے لازم آئیں گے، حالانکہ جو کام انسان کے فرائض منصبی میں داخل ہو، اس پر اضافی پیسے لینا یا دینا رشوت ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، لہذا یہ معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ اس کی درست صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اسکول کے اوقاتِ تعلیم سے ہٹ کر آپ ان سے مزید ڈرائیونگ سیکھنے کی بات کرلیں، پھر وہ اپنے طور پر آپ پر مزید محنت کرے، اور اس کے بدلے میں آپ ان کو ایک متعین رقم فیس کے طور پر دے دیں تو یہ جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (16/3، ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالمُرْتَشِيَ.
كشاف إصطلاحات الفنون و العلوم: (865/1، ط: مكتبة لبنان ناشرون)
أن حد الرشوة هو ما يؤخذ عما وجب على الشخص سواء كان واجبا على العين كما في القاضي وأمثاله، أو على الكفاية كما في شخص يقدر على دفع الظلم أو استخلاص حق أحد من يد ظالم أو إعانة ملهوف. وسواء كان واجبا حقا للشرع كما في القاضي وأمثاله وفي ولي امرأة لا يزوجها إلا بالهدية، وفي شاعر يخاف منه الهجو لأن الكف عن عرض المسلم واجب ديانة، أو كان واجبا عقدا فيمن آجر نفسه لإقامة أمر من الأمور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم أو عليهم كأعوان القاضي وأهل الديوان وأمثالهم.
امداد الاحکام: (288/4، ط: مکتبه دار العلوم کراتشی)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی