عنوان: حضرت بلالؓ کا آنحضرت ﷺ کى وفات کے بعد اذان دینے پر لوگوں کا دور نبوى کو یاد کر کے رونے کے واقعے کى تحقیق (13441-No)

سوال: عرض یہ ہے کہ ایک قصہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے خواب دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں خواب میں فرمارہے کہ بلال یہ کیا ظلم ہے، ہمارے پاس نہیں آتے تو آپؓ اسی وقت سامان سفر باندھ کر مدینہ منورہ حاضر ہونے کی نیت سے نکل پڑے، پھر حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی درخواست پر اذان دی۔ کیا یہ واقع مستند و قابل اعتماد ہے، کیا اس کو بیان کرسکتے ہیں؟

جواب: آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى وفات کے بعد حضرت بلال حبشى رضی اللہ عنہ کا اذان دىنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا آپ کى اذان سن کر دور نبوى على صاحبہ الصلاۃ والسلام کو یاد کر کے رونے والے اس واقعہ کو مختلف روایات سے نقل کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک مشہور روایت وہ ہے جو سوال میں مذکور ہے، لیکن اس روایت کو بیان کرنے والے راوى مجہول اور حدیث کے معاملے میں غیر معتبر ہیں، اس وجہ سے جلیل القدر ائمہ محدثین کے نزدیک یہ روایت ناقابل اعتبار ہے، لہذا اس روایت کو خواب کے پس منظر کے ساتھ بیان کرنا درست نہیں ہے۔
تاہم اس سلسلے کى ایک روایت قابل اعتماد راویوں سے بھی مروی ہے، جس میں خواب کا ذکر نہیں ہے، بلکہ یہ مذکور ہے کہ یہ واقعہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا ہے، جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ملک شام کے سفر پر تشریف لے گئے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ شام میں پہلے سے ہی مقیم تھے، وہاں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے اذان دینے کى فرمائش کى، اس فرمائش کى تعمیل میں جب انہوں نے اذان دى تو اس وقت موجود صحابہ کرام دور نبوى على صاحبہ الصلاۃ والسلام کو یاد کر کے رونے لگے، یہ واقعہ درست ہے اور اس کى سند معتبر ہے۔
ذیل میں دونوں روایات اور ان پر محدثین کا کلام نقل کیا جاتا ہے:
اس واقعے کی مشہور روایت جو کہ غیر معتبر ہے:
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں شام تشریف لائے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ان سے اپنے لیے شام میں مقیم ہونے کی اجازت طلب کى، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ وہاں مقیم ہو گئے، انہیں ایک رات کو خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ کیا اب بھى وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کے لیے (مدینہ) آؤ؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ غم اور گھبراہٹ کے عالم میں نیند سے فورا بیدار ہوئے، سواری پر سوار ہوئے اور مدینہ منورہ پہنچ کر قبرِ مبارک پر حاضری دی، وہاں روتے رہے، اور اپنے چہرے کو قبر مبارک پر ملتے رہے۔ اتنے میں حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما تشریف لے آئے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دونوں کو گلے لگایا، انہیں پیار کیا، ان دونوں نے فرمائش کی: ہم سحرى کے وقت وہ اذان سننا چاہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ دیا کرتے تھے، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ مسجد کی چھت میں چڑھ کر اسی جگہ کھڑے ہوگئے جہاں نبی کریم ﷺ کے زمانے میں کھڑے ہوا کرتے تھے اور اذان دی، جب انہوں نے "الله أكبر، الله أكبر" کہا تو سارا مدینہ (اس سحر انگیز اور ایمان افروز آواز کو سن کر) گونج اٹھا، اور جب "أشهد أن لا إله إلا الله" کہا تو مدینہ کى اس گونج میں اور بھى اضافہ ہو گیا، لیکن جب "أشهد أن محمدا رسول الله" کہا تو خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں اور لوگ سوالیہ انداز میں کہنے لگے کہ کیا رسول اللہ ﷺ (دوبارہ) تشریف لے آئے ہیں؟ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد اس دن سے زیادہ مرد و زن کو روتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر: 136/7)
اس روایت کا حکم:
علامہ سیوطى رحمہ اللہ (م 911ھ) نے اپنى کتاب "الزیادات على الموضوعات" میں اس اثر كو ابن عساکر کے حوالے سے نقل کر کے فرمایا ہے: امام ذہبى رحمہ اللہ (م 748 ھ) نے "میزان الاعتدال" میں اس حدیث کے راوى ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن أبی الدرداء کو مجہول قرار دیا ہے، نیز حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ (م 852ھ) نے "لسان المیزان" میں اسى راوى کے تذکرے میں فرمایا ہے کہ ابن عساکر نے اس راوى (ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن أبی الدرداء) کا تذکرہ کر کے انہى کى سند سے روایت میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا شام سے مدینہ جانا اور وہاں اذان دینے پر مدینہ کا لوگوں کى آہ وبکا سے گونجنے کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ واضح طور پر "موضوع" (من گھڑت) ہے۔
نیز علامہ ابن عراق الکنانى رحمہ اللہ (م 963) نے "تنزیہ الشریعۃ" میں مذکورہ بالا تفصیلات کو امام سیوطى کے حوالے سے نقل کر کے انہوں نے بھی اس اثر کے "موضوع" (من گھڑت) ہونے میں امام سیوطى رحمہ اللہ کے ساتھ اتفاق فرمایا ہے۔
اس واقعے کی معتبر روایت:
1) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "التاريخ الأوسط" جلد 1 ص 165، طبع: دار الصميعي، میں زید بن اسلم کے والد أسلم العدوی رحمہ اللّٰہ سے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام کے سفر پر گئے تو وہاں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے (نماز کے لیے) اذان کہی تو لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ گئے اور وہ رونے لگے راوی کہتے ہیں: میں نے اس دن سے زیادہ لوگوں کو روتے ہوئے نہیں دیکھا۔
2) امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو اپنی "کتاب الزہد"صفحہ 238 حدیث نمبر (262)، طبع: دارالمشکاۃ میں نقل کیا ہے۔
3) امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "السنن الكبرى" جلد 1 ص 617 حدیث نمبر (1974) طبع: دار الكتب العلمية، میں اس واقعے کو درج ذیل تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے:
ولید بن مسلم کا بیان ہے کہ میں نے حضرت مالک بن انس رحمہ اللہ سے مسنون اذان کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا: تم لوگ اذان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو اور یہ کہ تم نے یہ اذان کہاں سے سیکھی ہے، تو ولید کہتے ہیں کہ میں نے ان سے عرض کیا کہ سعید بن عبدالعزیز اور ابن جابر اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں نے یہ بتایا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی خلیفہ کے لیے اذان نہیں کہی، کیونکہ وہ جہاد کے ارادے سے جانا چاہتے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ میں قیام کے لیے روکا اور وہاں مدینہ میں مقیم ہونے کو فرمایا، تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے ازاد کیا تھا تو مجھے جہاد سے مت روکیے اور اگر آپ نے مجھے اپنے لیے ازاد کیا تھا تو میں مدینہ میں رک جاتا ہوں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو مدینہ سے سفر کرنے کی اجازت دے دی تو وہ شام میں مقیم ہو گئے یہاں تک کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب شام کے سفر میں جابیہ کے مقام پر تشریف لائے تو مسلمانوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمائش کریں کہ وہ اذان کہیں تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے اذان دینے کو فرمایا تو حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ نے اہل شام کے لیے ایک دن یا ایک نماز کے لیے اذان کہی، راوی کہتے ہیں کہ اس دن سے زیادہ لوگوں کو روتا ہوا نہیں دیکھا گیا کہ جب انہوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آواز کو سنا اور اس سے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ان کو یاد آیا۔۔۔۔الخ
اس واقعے کی دوسری روایت کا حکم:
اس واقعے کے راویوں کے متعلق محدثین نے جرح نہیں فرمائی ہے، بلکہ اس روایت کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، نیز اس واقعے کی یہ روایت مشہور روایت کے مقابلے میں معتبر اور مستند ہے، لہذا اس روایت کو بیان کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ بحث:
حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ سے منسوب مشہور واقعہ جس میں ان کے خواب میں آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے اور آپ کے شکوے پر مدینہ منورہ حاضر ہو کر اذان کہنے سے اہل مدینہ کا عہد نبوی علی صاحبہ الصلاۃ والسلام کو یاد کر کے رونے کا ذکر ہے، اس واقعے کی یہ مشہور روایت محدثین کے نزدیک غیر معتبر بلکہ "موضوع" ہے، لہذا اس پس منظر کے ساتھ اس واقعے کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔
ہاں! اس واقعے کی دوسری روایت جو کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے کی ہے، وہ روایت درست اور معتبر ہے، اسے بیان کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تاريخ دمشق لابن عساكر:( ترجمة ‌‌ إبرهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ابن أبي الدرداء الأنصاري صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم أبي إسحاق ،7/ 136، ط: دار الفكر-بيروت)
أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزل داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك اليوم.

و ذكر السيوطي هذا الأثر في "الزيادات على الموضوعات"
(كتاب الصلاة،1/ 406، رقم الحديث (481)، ط: مكتبة المعارف) معزوا لابن عساكر، وقال: قال في (الميزان) : إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء فيه جهالة. قال في (اللسان) : ترجم له ابن عساكر ثم ساق مِن روايته عن أبيه عن جده عن أمِّ الدرداء عن أبي الدرداء في قصة ‌رحيل ‌بلال إلى الشام وفي قصة مجيئه إلى المدينة وأذانه بها وارتجاج المدينة بالبكاء لأجل ذلك، وهي قصة بيِّنة الوضع، انتهى".
وأقره الكناني في" تنزيه الشريعة ": (كتاب الصلاة/ الفصل الثالث،2/ 118، رقم الحديث (113)، ط: دار الكتب العلمية)

التاريخ الأوسط للبخاري: (رقم الحدیث: 165، 139/1، ط: دار الصميعي)
حدثنا عبد الله قال حدثنا محمد قال حدثنا يحيى بن بشر قال ثنا قراد أنا هشام بن سعد عن زيد بن أسلم عن أبيه قال ‌قدمنا ‌الشام ‌مع ‌عمر فأذن بلال فذكر الناس النبي صلى الله عليه وسلم فلم أر يوما أكثر باكيا منه.

الزهد لأبي داود: (من خبر بلال رحمه الله، ص: 238، رقم الحدیث: 262، ط: دار المشكاة)
حدثنا أبو داود قال: نا عباس العنبري، قال: نا أبو نوح عبد الرحمن بن غزوان، قال: نا هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم، عن أبيه، قال: ‌قدمنا ‌الشام ‌مع ‌عمر بن الخطاب، فأذن بلال فذكر الناس النبي صلى الله عليه وسلم فلم أر يوما كان أكثر باكيا منه، جاء بلال يستأذن على عمر، ونحن على بابه، فقلنا له: إن أمير المؤمنين نائم، فقال بلال: لا تكلمون عند عمر أنه كان نائما، والله لو كان يقظانا لقرأت عليه القرآن حتى يضع رقبته.
قال الذهبي في "الكاشف" 2/ 336، رقم (5964)، ط: دار القبلة)
"هشام بن سعد عن زيد بن أسلم ونافع والمقبري وعنه بن وهب والقعنبي وابن مهدي قال أبو حاتم لا يحتج به وقال أحمد لم يكن بالحافظ قلت حسن الحديث مات 16 م 4".
قال الحافظ في "التقريب" ص348، رقم (3977)، ط: دار الرشيد)
"‌عبد ‌الرحمن ‌ابن ‌غزوان بمعجمة مفتوحة وزاي ساكنة الضبي أبو نوح المعروف بقراد بضم القاف وتخفيف الراء ثقة له أفراد من التاسعة مات سنة سبع وثمانين ومائة، خ د ت س".
وقال في "فتح الباري" 9/ 401:
"قراد بضم القاف وتخفيف الراء وآخره دال مهملة، وهو لقب واسمه: عبد الرحمن بن غزوان بفتح المعجمة، وسكون الزاي، وأبو نوح كنيته، وهو من كبار الحفاظ، وثقوه، ولكن خطئوه في حديث واحد حدث به عن الليث خولف فيه".

السنن الكبرى للبيهقي (ذكر جماع أبواب الأذان، باب من قال بتثنية الإقامة وترجيع الأذان، 617/1، رقم الحديث: 1974، ط: دار الكتب العلمية)
وأخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أنا أبو يحيى أحمد بن محمد بن إبراهيم، ثنا أبو عبد الله محمد بن نصر، ثنا أبو الوليد أحمد بن عبد الرحمن القرشي، ثنا الوليد بن مسلم، قال: سألت مالك بن أنس عن السنة في الأذان فقال: ما تقولون أنتم في الأذان وعمن أخذتم الأذان؟ قال الوليد: فقلت: أخبرني سعيد بن عبد العزيز وابن جابر وغيرهما أن بلالا لم يؤذن لأحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأراد الجهاد فأراد أبو بكر منعه وحبسه فقال: إن كنت أعتقتني لله فلا تحبسني عن الجهاد وإن كنت أعتقتني لنفسك أقمت، فخلى سبيله وكان بالشام حتى قدم عليهم عمر بن الخطاب الجابية فسأل المسلمون عمر بن الخطاب أن يسأل لهم بلالا يؤذن لهم فسأله فأذن لهم يوما أو قالوا: صلاة واحدة قالوا: فلم ير يوما كان أكثر باكيا منهم يومئذ حين سمعوا صوته ذكرا منهم لرسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا: فنحن نرى أو نقول: إن أذان أهل الشام عن أذانه يومئذ فقال مالك: لا أدري ما أذان يوم أو صلاة يوم أذن سعد القرظ في هذا المسجد في زمان عمر بن الخطاب وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم متوافرون فيه فلم ينكره أحد منهم فكان سعد وبنوه يؤذنون بأذانه إلى اليوم ولو كان وال يسمع مني لرأيت أن يجمع هذه الأمة على أذانهم فقيل لمالك: فكيف كان أذانهم؟ قال: يقول الله أكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، ثم يرجع فيقول: أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله قال: والإقامة مرة مرة " قال أبو عبد الله محمد بن نصر: فأرى فقهاء أصحاب الحديث قد أجمعوا على إفراد الإقامة واختلفوا في الأذان فاختار بعضهم أذان أبي محذورة منهم مالك بن أنس والشافعي وأصحابهما واختار جماعة منهم أذان عبد الله بن زيد قال: قال الشيخ: منهم الأوزاعي كان يختار تثنية الأذان وإفراد الإقامة وإلى إفراد الإقامة ذهب سعيد بن المسيب وعروة بن الزبير والحسن البصري ومحمد بن سيرين والزهري ومكحول وعمر بن عبد العزيز في مشيخة جلة سواهم من التابعين رضي الله عنهم.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 212 Dec 18, 2023
hazrat bilal razi allahu anhu ki wafat k bad azan dene per logon ka doorey nabwi ko yad karke rone ke waqa ki tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.