سوال:
حضرت ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں علی رضی الله عنہ بھی تھے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا فرما رہے تھے: «اللهم لا تمتني حتى تريني عليا» ”اے اللہ! تو مجھے مارنا نہیں جب تک کہ مجھے علی کو دکھا نہ دے“۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر ۳۷۳۷) کیا یہ حدیث بیان کی جاسکتی ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت کو اگرچہ بعض محدثین نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے، لیکن امام ترمذی نے ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے، نیز چونکہ اس روایت کا تعلق فضائل کے باب سے ہے، اس لیے اس کو بیان کرنے کی گنجائش ہے۔
ذیل میں مکمل حدیث کا ترجمہ، تخریج اور اسنادی حیثیت ذکر کی جاتی ہے۔
ترجمہ:
حضرت ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں علی رضی الله عنہ بھی تھے، میں نے نبی اکرم ﷺ کو سنا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا فرما رہے تھے: «اللهم لا تمتني حتى تريني عليا» ”اے اللہ! مجھے موت سے اس وقت تک مہلت عطا فرمائیے جب تک آپ مجھے دوبارہ علی کو دکھا نہیں دیتے“۔
تخریج الحدیث:
سوال میں ذکرکردہ روایت درج ذیل کتب میں موجود ہے:
۱) اس روایت کو امام ترمذی (م279ھ) نے ’’سنن الترمذی‘‘ (95/6، رقم الحدیث:3737، ط:دارالغرب الاسلامی) میں ذکر کیا ہے۔
۲) امام احمد بن حنبل (م241ھ) ’’فضائل الصحابة‘‘ (609/2، رقم الحدیث:1039 ،1116، ط:مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
۳) امام طبرانی (م360ھ) نے’’المعجم الکبیر‘‘ (68/25، رقم الحديث:168، ط: مکتبة ابن تيمية) اور ’’المعجم الأوسط’’(48/3، رقم الحدیث:2432، ط: دارالحرمین) میں ذکر کیا ہے۔
۴) حافظ ابو القاسم عبدالملک بن بشران (م430ھ) نے’’أمالي ابن بشران‘‘ (ص:101، رقم الحدیث:1146، ط:دارالوطن) میں نقل کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو امام ترمذی نے ’’حسن غریب‘‘ قرار دیا ہے اور
اصحابِ صحاح ستہ میں سے صرف امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور امام بخاری نے ابو عاصم کی سند سے تاریخ کبیر میں نقل کیا ہے اور علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں امام ترمذی ہی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
چونکہ اس روایت میں’’ابوالجراح‘‘ اور ’’ام شراحیل‘‘ کے علاوہ تمام راوی ثقہ ہیں۔ علامہ ابن حجرعسقلانی نے (م852ھ) نے ’’ابوالجراح‘‘ کو مجہول اور’’ام شراحیل‘‘کو غیر معروف کہا ہے، لہذا ان دو راویوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے روایت سنداً ضعیف ہوجاتی ہے، لیکن امام ترمذی نے اس روایت کو ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس حدیث میں حضور اکرم ﷺ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حد درجہ محبت کی طرف اشارہ ہے اور جناب رسول اللہ ﷺ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حد درجہ محبت کا متعدد احادیث میں ذکر ہے۔ اسی طرح اس حدیث میں یہ ارشاد «اللهم لا تمتني حتى تريني عليا» (اے اللہ! مجھے موت سے اس وقت تک مہلت عطا فرمائیے جب تک آپ مجھے دوبارہ علی کو دکھا نہیں دیتے) جناب رسول اللہ ﷺ نے مرض وفات کے دوران فرمایا تھا، شاید رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ضروری کام سے بھیجا تھا اور آپ ان کا مسلسل انتظار فرمارہے تھے، جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے صحیح سند سے مروی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ترمذی کا اس روایت کو "حسن" کہنا درست ہے اور ان کی شرط کے موافق ہے اور"غریب" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سند کے ساتھ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرنے میں ابو عاصم متفرد (اکیلے)ہیں، لہذا یہ روایت سند کے اعتبار سے تو غریب یعنی روای نقل کرنے میں اکیلے ہے، لیکن متن (الفاظ) کے اعتبار سے غریب نہیں ہے۔
(مستفاد از حسن غريب في جامع الترمذي دراسة و تطبيق:(1105/2)
خلاصۂ کلام:
محدثین کرام نے سوال میں ذکر کردہ روایت دو راویوں کے مجہول ہونے وجہ سے ضعیف قرار دی ہے، لیکن امام ترمذی نے اس کو حسن غریب کہا ہے اور چونکہ اس روایت کا تعلق فضائل کے باب سے ہے، اس لیے اس کو بیان کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 3737، ط: 95/6، دار الغرب الاسلامي)
حدثنا محمد بن بشار ويعقوب بن إبراهيم وغير واحد، قالوا: حدثنا أبو عاصم ، عن أبي الجراح، قال: حدثني جابر بن صبح قال: حدثتني أم شراحيل قالت: حدثتني أم عطية قالت: «بعث النبي صلى الله عليه وسلم جيشا فيهم علي» قالت: فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم وهو رافع يديه يقول: اللهم لا تمتني حتى تريني عليا.
والحديث أخرجه أحمد في’’فضائل الصحابة‘‘(609/2(1039)(1116)و الطبراني في’’المعجم الکبیر‘‘(68/5)(168)و في ’’المعجم الأوسط’’( 48/3)(2432) وابن بشران في’’الأمالي‘‘(101)(1146)
أخرجه الترمذي وقال:هذا حديث حسن غريب، إنما نعرفه من هذا الوجه وقال الطبراني في ’’المعجم الأوسط‘‘: ’’لا يروى هذا الحديث عن أم عطية إلا بهذا الإسناد، تفرد به أبو عاصم‘‘.
حسن غريب في جامع الترمذي دراسة و تطبيق: (1105/2، ط: أكاديمية شيخ الهند)
انفرد به الترمذي من بين الستة، وأخرجه البخاري في التأريخ الكبير (20/8) من۔۔ أبي عاصم به. وذكره ابن كثير في البداية والنهاية (381/7) نقلاً عن الترمذي.والحديث رجاله ثقات إلا أبا الجراح، وأم شراحيل
أما أبو الجراح؛ فقال الحافظ في’’ التقريب‘‘(628)(8009): مجهول. وأما أم شراحيل؛ فقال الحافظ في ’’التقريب‘‘(757)(8736): لا يُعرف حالها.
فنزل إسناد الحديث إلى درجة الضعف، ولكن حسنه الترمذي لما يعضده من الأحاديث الواردة في حب النبي علياً، فإن هذا الحديث يدل على حبه إياه غاية الحب وقد سبقت أحاديث كثيرة في هذا المعنى. هذا، والحديث يدل أيضاً على أن قول النبي : اللهم لا تمتني حتى تريني علياً»كان في مرض وفاته، ولعله كان قد بعثه على أمر هام، فلم يزل ينتظره، حتى رجع كمايدل على ذلك حديث أم سلمة رضي الله عنها عند أحمد (300/6)، وأبي يعلى (6934،6968) قالت: والذي أحلف به ! إن كان على الله لأقرب الناس عهدا برسول الله، قالت: عدنا رسول الله ﷺ غداة بعد غداة، يقول: «جاء على ؟ مراراً، قالت: وأظنه كان بعثه في حاجة، قالت: فجاء بعد فظننت أن له إليه حاجة، فخرجنا من البيت، فقعدنا عندالباب، فكنت من أدناهم إلى الباب، فأكب عليه على ، فجعل يساره، ويناجيه، ثم قبض رسول الله من يومه ذلك، فكان أقرب الناس به عهداً. قال الهيثمي في المجمع(112/9) رجاله رجال الصحيح غير أم موسى، وهي ثقة.فتحسين أبي عيسى واقع موقعه، وشرطه فيه موجود.أما الغرابة؛ فلاته وإن كان لا يُروى بهذا السياق إلا عن أم عطية بهذا الإسناد، تفرد به أبو عاصم، ولكن معناه مؤيد بغير هذا الحديث، فالحديث غريب إسناداً، لا متناً.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی