عنوان: کسی سے مال خریدنے کےبعد اسی کو قبضہ کا وکیل بناکر اپنے گاہک کو بیچنے کا حکم (13463-No)

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم بعض دفعہ گاہک کو اپنے پاس چیز موجود نہ ہونے کی وجہ سے کسی اور سے وہ چیز بھجوا دیتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً زید مجھ سے کوئی خاص کپڑا منگواتا ہے تو وہ خاص کپڑا اگرہمارے پاس ختم ہوچکا ہو تو آگے جن سے (مثلاخالد سے) ہم مال لیتے ہیں، ان کو آڈر دیتے ہیں کہ فلاں قسم کا کپڑا زید کے پتہ پربھیج دیں اورخالد کو ہم اپنی طرف سے وکیل بنا دیتے ہیں کہ ہماری طرف سے کپڑے پرقبضہ کرکے زید کو کپڑا اس کے ایڈریس پر بھیج دیں تو خالد ہمارے بائع بھی بنتا ہے اور ہماری طرف سے وکیل بن کر کپڑا وہی سے آگے بھیج دیتا ہے تو پوچھنا یہ ہے کہ یہ صورت شرعا درست ہے یا نہیں؟ اور اس کپڑے پر ہم نے زید سے جو نفع حاصل کیا ہے، وہ حلال ہے یا نہیں؟ اگر یہ صورت درست نہیں ہے تو اس کی جائز صورت کیا ہوگی؟

جواب: واضح رہے کہ خریدی ہوئی چیز کو قبضہ میں لیے بغیر اسے آگے فروخت کرنا شرعا جائز نہیں ہے، البتہ مال کو حسی طور پر اپنی تحویل اور قبضہ (physical possession) میں لینا شرعاً ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر حکمی/معنوی قبضہ (Constructive Possession) لے لیا جائے، تب بھی کافی ہے۔
حکمی قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ خریدے ہوئے مال کی باقاعدہ نشاندہی کرلی جائے، اور بیچنے والے کی طرف سے خریدار کے لیے اس میں مالکانہ تصرفات کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔
نیز جس سے مال خریدا جائے، اسی کو خریدار کی طرف سے قبضہ کا وکیل بنانا درست نہیں ہے، فروخت کنندہ کے علاوہ تیسرا شخص مال کے قبضہ کا وکیل بن سکتا ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کا خالد سے کپڑا خرید کر اسی کو قبضہ کا وکیل بناکر آگے مال فروخت کرنا شرعاً درست نہیں ہے، ایسے فاسد معاملے سے حاصل ہونے والا نفع شرعا جائز نہیں ہوگا۔
اس کی ایک جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ یا آپ کا نمائندہ (جو کہ خالد کے علاوہ کوئی اور ہو) مال اپنے قبضہ میں لے کر پھر آگے گاہک کو بیچ دے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ خالد آپ کے مال کی باقاعدہ نشاندہی کرکے آپ کو مالکانہ تصرفات دیدے تو ایسی صورت میں شرعاً اس مال پر آپ کا قبضہ (حکمی) متحقق ہوجائے گا، اس کے بعد خالد آپ کے کہنے پر وہ مال آپ کے گاہک کو بھیج دے تو یہ صورت بھی شرعاً درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح مسلم: (کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، 7/5، ط: دار الطباعة العامرۃ)
"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله۔"

بدائع الصنائع: (180/5، ط: رشیدیة)
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله. ولا يجوز إشراكه، وتوليته؛ لأن كل ذلك بيع

بدائع الصنائع: (242/4، ط: زکریا)
ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر: (587/2)
"لاينوب قبض الرهن عن قبض الشراء؛ لأنه قبض أمانة فلاينوب عن قبض الضمان"

رد المحتار: (كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، 88/5، 90، ط: سعید)
"(وإذا قبض المشتري المبيع برضا) عبر ابن الكمال بإذن (بائعه صريحا أو دلالة...في البيع الفاسد)...(ولم ينهه) البائع عنه ولم يكن فيه خيار شرط (ملكه)... (بمثله إن مثليا وإلا فبقيمته)
(قوله ملكه)أي ملكا خبيثا حراما فلا يحل أكله ولا لبسه إلخ قهستاني. وأفاده أنه يملك عينه، وهو الصحيح المختار۔"

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 774 Dec 20, 2023
kisi se maal kharidne ke bad usi ko qabzey ka wakeel banakar apne gahak ko bechne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.