عنوان: "اگر بچوں سے ملنے کی نیت سے ماں کے گھر سے نکلی تو مجھ پر حرام ہو" کے الفاظ بیوی سے کہنے کا حکم"(13467-No)

سوال: مفتی صاحب! مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ مجھے سسرال والوں نے مار کر بچے چھین کر گھر سے نکال دیا۔اس کی وجہ یہ بنی کہ شوہر کے بھتیجے نے بری نگاہ ڈالی تو شوہر نے باہر ملک سے سن کر طلاق کی دھمکی دے کر گھر سے نکل جانے کو کہا اور میں نے اپنی والدہ کو بلوا کر ان کے ساتھ میکے آگئی، اس کے ایک ہفتے بعد شوہر نے فون پہ کہا کہ اگر بچوں سے ملنے موہریاں گاؤں (یہ میرے سسرال والوں کا گاؤں ہے ) جانے کی نیت سے ماں کے گھر سے نکلی تو مجھ پر حرام ہو۔ میرے پاس وائس میسیج یا فون کال کی ریکارڈنگ نہیں ہے۔ میں ان حالات میں رہنا نہیں چاہتی تھی تو اس کے بعد میں اسی نیت سے اپنے سسرال کے گاؤں (موہریاں گاؤں) چلی گئی، جب میں وہاں گئی تو گھر تو نہیں گئی، لیکن جب گاؤں گئی تو گھر سے دس قدم کے فاصلے تک گئی اور محلے کی دکان کے سامنے گاڑی کے اندر سے ہی ویڈیو اپنی بنائی ہے اور بچوں کے اسکول کے استاد کی اجازت سے ان سے بھی ملی۔ سارے محلے کو بھی خبر ہوگئی تھی کہ میں اس محلہ میں گئی ہوئی ہوں، اگلے دن مغرب کے وقت نیک بخت شوہر کا میسیج آیا کہ بچوں سے ملنے کیوں گئی ہو؟ کیا اس طرح کرنے سے مجھے طلاق واقع ہو گئی اور کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

جواب: واضح رہے کہ حرام کا لفظ طلاق کے لیے صریح بائن ہے، لہذا اس سے بلانیت بھی ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔
پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً آپ کے شوہر نے مذکورہ الفاظ ( اگر بچوں سے ملنے موہریاں گاؤں جانے کی نیت سے ماں کے گھر سے نکلی تو مجھ پر حرام ہو ) آپ سے کہے ہیں تو یہ مشروط طلاق کے الفاظ ہیں، لہذا اس کے بعد جب آپ اپنے بچوں سے ملنے کی نیت سے ماں کے گھر نکل کر سسرال کے گاؤں گئیں تو شرط کے پائے جانے کی وجہ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر آپ دونوں اپنی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو عدت کے اندر یا بعد از عدت گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، لیکن دوبارہ نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اس لیے طلاق کے معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (252/3، ط: دار الفكر)
وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية.

الدر المختار: (435/3، ط: دار الفکر)
(قال لامرأته: أنت علي حرام) ونحو ذلك كأنت معي في الحرام (إيلاء إن نوى التحريم، أو لم ينو شيئا، وظهار إن نواه، وهدر إن نوى الكذب) وذا ديانة، وأما قضاء فإيلاء قهستاني (وتطليقة بائنة) إن نوى الطلاق وثلاث إن نواها ويفتى بأنه طلاق بائن ( وإن لم ينوه) لغلبة العرف، ولذا لا يحلف به إلا الرجال، ولو لم تكن له امرأة .

فتاوی عثمانی: (376/2، ط: مکتبه معارف القرآن)

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 359 Dec 21, 2023
agar bachon se milne ki niyat se maa ke ghar se nikli too mujh per haram ho" ke alfaz biwi se kehne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.