سوال:
میرا تعلق کراچی سے ہے، میری بیوی نے مجھ سے خلع مانگا اور میں نے وکیل کو خلع کا پیپر بنانے کو کہہ دیا، اس نے پیپر پر خلع لکھا اور پیچھے تین طلاقیں لکھ دیں، جو میں نے اس کو نہیں کہا تھا۔ میں صرف خلع دینا چاہتا ہوں، اور اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ یہ مہر واپس کرے گی، مجھے طلاق اور خلع کے پیپر کا پتہ نہیں، میں نے دستخط کردیے ہیں اور بیوی مجھ سے رجوع کرنا چاہتی ہے، لیکن یہاں کے امام صاحب کہتے ہیں کہ طلاق ہوگئی ہے، لیکن میں نے منہ سے نہیں کہا ہے۔ براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر واقعتاً آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس تحریر میں تین طلاقوں کا ذکر بھی ہے، نہ ہی آپ نے وکیل کو تین طلاقیں لکھنے کا کہا تھا اور نہ ہی آپ کو تحریر میں لکھے گئے تین طلاق کے الفاظ سنائے گئے تھے تو اس تحریر پر دستخط کرنے کی وجہ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع نہیں ہوئی ہیں، بشرطیکہ آپ نے زبان سے تین طلاقیں نہ دی ہوں، البتہ چونکہ اس تحریر میں خلع کا ذکر موجود ہے، لہذا آپ کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے آپ دونوں کا نکاح ٹوٹ گیا ہے اور آپ کی بیوی پر مہر واپس کرنا بھی لازم ہے۔
اب اگر آپ دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (379/1، ط: دار الفکر)
رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها وكذلك لو قال لذلك الرجل ابعث بهذا الكتاب إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم تقم عليه البينة ولم يقر أنه كتابه لكنه وصف الأمر على وجهه فإنه لا يلزمه الطلاق في القضاء ولا فيما بينه وبين الله تعالى وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه كذا في المحيط.
و فیها ایضاً: (489/1، ط: دار الفکر)
إن خالعها على مهرها فإن كانت المرأة مدخولا بها وقد قبضت مهرها يرجع الزوج عليها بمهرها وإن لم يكن مقبوضا سقط عن الزوج جميع المهر ولا يتبع أحدهما صاحبه بشيء.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی