سوال:
ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک دفعہ طلاق دے دی ہے، اس نے کہا ہے کہ میں رجوع کر لوں گا، لیکن اس کی بیوی کے بیان کے مطابق طلاق دینے کے بعد سے چھ مہینے گزر گئے ہیں، ابھی تک اس نے رجوع نہیں کیا ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا طلاق ہو گئی ہے؟ اگر ہو گئی ہے تو کتنی ہو گئی ہیں؟ اور طلاق سے رجوع کرنے سے کیا مراد ہوتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بیوی کو ایک یا دو طلاق رجعی دینے کے بعد شوہر دورانِ عدت (حاملہ نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواریاں گزرنا) رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے، لیکن اگر شوہر نے عدت کے دوران رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی عورت اس مرد کے نکاح سے نکل جائے گی، اب اگر سابقہ میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔
رجوع سے مراد یہ ہے کہ شوہر بیوی سے زبان سے یوں کہہ دے کہ میں نے تجھ سے رجوع کرلیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس پر دو گواہ بھی بنادے، اسی طرح اگر شوہر بیوی کے ساتھ ہمبستری کرلے یا شہوت کے ساتھ اسے چھولے تو اس سے بھی رجوع ہوجائے گا۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر واقعتاً عورت کا بیان درست ہو کہ شوہر نے طلاق کے بعد چھ مہینے گزرنے تک رجوع نہیں کیا ہے اور اس دوران عورت کی عدت بھی گزر چکی ہو تو ایسی صورت میں عورت اس مرد کے نکاح سے نکل چکی ہے، اب اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا لازم ہوگا۔
نوٹ: یہ جواب اس صورت میں ہے کہ شوہر بھی بیوی کے بیان سے متفق ہو، لیکن اگر شوہر دورانِ عدت رجوع کا دعوی کرتا ہو تو مسئلہ کی پوری صورت دوبارہ سے وضاحت سے لکھ کر بھیجیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (398/3، ط: دار الفکر)
وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس ولو منها اختلاسا، أو نائما، أو مكرها أو مجنونا، أو معتوها إن صدقها هو أو ورثته بعد موته جوهرة ورجعة المجنون بالفعل بزازية.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل.
(قوله: كمس) أي بشهوة كما في المنح، ويفيده قوله: بما يوجب حرمة المصاهرة ح. قال في البحر: ودخل الوطء، والتقبيل بشهوة - على أي موضع كان، فما أو خدا، أو ذقنا، أو جبهة، أو رأسا -، والمس - بلا حائل أو بحائل يجد الحرارة معه بشهوة -، والنظر إلى داخل الفرج بشهوة - بأن كانت متكئة -،
الفتاوی الھندیة: (468/1، ط: دار الفکر)
الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی