سوال:
ایک شخص نے اپنی بیوی کو لکھ کر دیا کہ اگر میں نے دوسری شادی کی تو میری طرف سے ایمان (بیوی کا نام) کو طلاق ہے اور تین بار منہ سے بھی یہ جملہ کہا ہے، اب وہ صرف لکھا ہوا مانتا ہے، منہ سے بولا ہوا نہیں، اس کا کہنا ہے کہ میری نیت نہیں تھی، مجھ سے بلوایا گیا ہے، اب اگر وہ دوسری شادی کرتا ہے اور پہلی بیوی کو اس ڈر سے نہیں بتاتا کہ اسے طلاق ہوجائے گی، اور اسے بتائے بغیر تین ماہ کے اندر رجوع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے چونکہ رجوع کرلیا ہے، لہذا طالق ختم ہوگئی ہے، کیا اس کے ایسا کرنا درست ہے اور اس سے کتنی طلاق واقع ہوں گی؟
جواب: واضح رہے کہ طلاق کے الفاظ کو لکھنے اور بولنے کا ایک ہی حکم ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب شوہر نے لکھا "اگر میں نے دوسری شادی کی تو ایمان کو طلاق" اور پھر تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے تو ان الفاظ کی وجہ سے تین طلاقیں دوسری شادی کرنے پر موقوف ہوگئیں، پھر جب شوہر نے دوسری شادی کرلی تو پہلی بیوی ایمان پر تین طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اور اب ان دونوں کا میاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (البقرة، الآية: 230)
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ •
البحر الرائق: (490/4، ط: دار الكتب العلمية)
وفي الاصل أيضا: ولو قال هو يهودي هو نصراني إن فعل كذا يمين واحدة، ولو قال هو يهودي إن فعل كذا هو نصراني إن فعل كذا فهما يمينان. في النوازل: قال لآخر والله لا أكلمه يوما والله لا أكلمه شهرا والله لا أكلمه سنة، إن كلمه بعد ساعة فعليه ثلاثة أيمان، وإن كلمه بعد الغد فعليه يمينان، وإن كلمه بعد الشهر فعليه يمين واحده، وإن كلمه بعد سنة فلا شئ عليه ا ه. وفي فتح القدير: وعرف فلي الطلاق أنه لو قال لها إن دخلت الدار فأنت طالق إن دخلت الدار فأنت طالق إن دخلت الدار فأنت طالق فدخلت وقع ثلاث تطليقات.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی