عنوان: جسم سے خون بہنے کی صورت میں وضو ٹوٹنے کا حکم، اس مسئلے میں ائمہ اربعہ کا مسلک، دلائل اور ان کے جوابات (13495-No)

سوال: جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب (آدم) نماز میں ہنس پڑے تو نماز لوٹائے اور وضو نہ لوٹائے اور حسن (بصری) نے کہا کہ جس شخص نے (وضو کے بعد) اپنے بال اتروائے یا ناخن کٹوائے یا موزے اتار ڈالے اس پر وضو نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور حضرت جابر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ذات الرقاع کی لڑائی میں (تشریف فرما) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس (کے جسم) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون (نکلنے) سے وضو (واجب) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے (اپنی) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے (دوبارہ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفیٰ نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن ؓ پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 176)
مفتی صاحب! روایت بالا اور سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 198 کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں کہ احناف کے نزدیک کن دلائل کی وجہ سے وضو ٹوٹتا ہے اور مذکورہ بالا دلائل کی ان احناف کے دلائل کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟

جواب: سوال میں وضو ٹوٹنے کے مسائل سے متعلق صحابہ کرام اور تابعین کے مختلف اقوال مذکور ہیں، البتہ آپ کے سوال کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان میں سے صرف خون کے متعلق دریافت کرنا ہے کہ آیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں ہے؟ سوال میں مذکور مضمون صحیح بخارى کى عبارت کا ترجمہ ہے، چنانچہ صحیح بخارى کى اس عبارت کى تشریح اور جواب سے قبل اصل مسئلے کو سمجھنا ضرورى ہے تاکہ "صحیح بخارى" کا یہ مضمون سمجھنا آسان ہو۔
انسان کے بدن سے نکلنے والى چیزیں تین طرح کى ہیں:
1) بدن سے نکلنے والى چیز ایسى ہو جو کہ نجس نہ ہو، جیسے آنسو، پسینہ، تھوک وغیرہ ان کے نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے، اس بات پر تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے۔
2) بدن سے نکلنے والى چیز ایسى ہو جو کہ نجس ہو اور وہ "سبیلین" (اگلى اورپچھلى شرمگاہ ) سے نکلے، جیسے پیشاب و پاخانہ، حیض ونفاس کا خون، لہذا ایسى نجاست جو "سبیلین" سے نکلے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس بات پر بھى تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے۔
3) بدن سے نکلنے والى چیز ایسى ہو جو کہ نجس تو ہو، لیکن وہ "سبیلین" کے علاوہ جسم کے دوسرے کسى مقام سے خارج ہو، تو اس سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ اس صورت میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے۔
امام شافعى رحمہ اللہ کا مسلک:
ان کے نزدیک وضو اس وقت ٹوٹے گا جب نجاست اپنے مخرج ِمعتاد "سبیلین" (یعنى نجاست جسم کے اس مقام سے خارج ہو جہاں سے عادۃً خارج ہوتی ہو، جیسے "سبیلین") سے نجاست کا خروج، لہذا امام شافعى رحمہ اللہ کے نزدیک اگر خون "سبیلین" کے علاوہ جسم کے کسى دوسرے حصے سے نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک:
ان کے نزدیک صرف اس نجاست سے وضو ٹوٹے گا جو خود بھى معتاد ہو (عادۃ ًنکلتى ہو) اور اس کا مخرج بھى معتاد (سبیلین) ہو جیسے: بول وبراز وغیرہ، لہذا قئے آنے، نکسیر پھوٹنے اور زخم وغیرہ سے خون نکلنے سے ان کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹے گا۔
امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کامسلک:
ان حضرات کے نزدیک صرف جسم سے نجاست کے خروج سے ہى وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ وہ نجاست جسم سے عادۃً نکلتى ہو، یا عادۃً نہ نکلتى ہو، خواہ اس کا مخرج معتاد (سبیلین) ہو یا نہ ہو، لہذا حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک بول وبراز سے، خون بہنے، نکسیر پھوٹنے، زخم سے پیپ بہنے اور منہ بھر کر قئے ہونے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
نيز حضرات عشره مبشرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابو موسى اشعرى اور دیگر اکابر صحابہ کرام وتابعین رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھى یہى مؤقف ہے۔
امام شافعى رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ كا استدلال:
جیسا کہ سوال کى پوسٹ میں بھى مذکور ہے، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کى روایت جو کہ"سنن ابى داود" میں سندا اور "صحیح بخارى" میں تعلیقا نقل کى گئى ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ غزوه ذات الرقاع كے موقع پر رات کو پہرہ دیتے ہوئے ایک انصارى صحابى عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کى اور دشمن کے ایک شخص نے نماز کے دوران انہیں تیر مارا، لیکن وہ نماز میں مشغول رہے کیونکہ انہوں نے سورۃ الکہف شروع کر رکھى تھى، اس میں انہیں مزہ آرہا تھا، جب دشمن نے انہیں یکے بعد دیگرے تین تیر مارے تب انہوں نے نماز ختم کر کے اپنے مہاجری ساتھى کو جگایا، اس وقت کافر کو معلوم ہوا کہ یہاں مزید افراد بھى ہیں، تو وہاں سے وہ بھاگ گیا، جب مہاجرى صحابى نے انصارى صحابى کو خون میں لت پت دیکھا تو کہا سبحان اللہ! آپ نے مجھے پہلے ہی تیر پر کیوں نہ جگا دیا؟ انہوں نے فرمایا: دراصل میں ایک ایسی سورت پڑھ رہا تھا جس کو درمیان میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ (سنن ابی داؤد: حدیث نمبر: 198)
اس حدیث سے حضرات شوافع اور مالکیہ رحمہم اللہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ ان صحابی نے خون نکلنے کے باوجود نماز کو جاری رکھا، اگر خون نکلنے سے وضو ٹوٹتا تو وہ صحابی پہلے ہی تیر پر نماز ختم کر دیتے، لہذا ان کا نماز کو جاری رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔
اسى طرح ان حضرات کا استدلال حضرات صحابہ کرام اور تابعین کے مختلف اقوال سے بھی ہے مثلا:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل کہ انہوں نے اپنےجسم سے ایک پھنسى کو دبایا، اس سے کچھ مواد نکلا، لیکن انہوں نے وضو نہیں فرمایا۔حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مسلمان مجاہدین جنگوں میں اپنے زخموں کے ساتھ نماز پڑھتے رہے ہیں یعنی زخموں سے خون نکلنے کے باوجود بھی وہ نماز پڑھتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت حسن بصرى رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پچھنے لگوانے والے پر وضو واجب نہیں ہے، صرف پچھنے کى جگہ کو دھولینا کافى ہے، اس سے معلوم ہوا کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔
حنفیہ اور حنابلہ رحمہم اللہ کا استدلال:
ان حضرات کا استدلال درج ذیل مرفوع احادیث سے ہے:
1) حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے قئے فرمائى اور پھر وضو فرمایا۔ (سنن ترمذى: حديث نمبر: 87)
اس حدیث میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے قے آنے پر وضو فرمایا، جس سے معلوم ہوا کہ قئے آنے پر بھى وضو لازم ہے۔
2) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے دوران نماز اگر کسى کو قئے آئے، یا اس کى نکسیر پھوٹے، یا مذى آئے تو اسے چاہیے کہ وہ جاکر وضو کرے اور پھر واپس لوٹ کر اپنى نماز پر بنا کرے اور اس دوران وہ بات نہ کرے۔
(سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 1221)
اس حدیث میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے قے اور نکسیر پھوٹنے کى وجہ سے وضو کو لازم قرار دیا ہے۔
3) حضرت فاطمہ بنت أبی حبیش رضی اللہ عنہا کى روایت جو تقریبا تمام کتبِ صحاح میں مذکور ہے، جس كو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ ایک صحابیہ حضرت فاطمہ بنت أبی حبیش رضی اللہ عنہا آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے اپنے استحاضہ کا عارضہ بیان کیا اور پوچھا کہ کیا میں اس حالت میں نماز ترک کر دوں؟ تو انہیں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں! (تم نماز ترک مت کرو)، یہ تو ایک رگ ہے جس سے یہ خون آتا ہے، یہ حیض نہیں ہے، لہذا جب حیض کے ایام آئیں تب نماز موقوف کر دو اور جب وہ ایام گزر جائیں تو اپنے جسم سے خون صاف کر کے نماز ادا کر لیا کرو"، نیز اسی حدیث کے "سنن ترمذى" کے طریق میں یہ اضافہ بھى ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: "تم ہر نماز کا وقت آنے پر وضو کر لیا کرو"۔ (سنن ترمذى: حدیث نمبر: 125)
اس حدیث میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے وضو کا سبب رگ سے خون نکلنے کو قرار دیا ہے اور اس کى وجہ سے نماز کے وقت وضو کرنے کا بھى حکم فرمایا ہے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ خون کے نکلنے وضو لازم ہوتا ہے۔
4) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ہر بہنے والے خون سے وضو لازم ہے"۔
(الکامل لابن عدی: 1/ 313)
حضرات شوافع اور مالکیہ رحمہما اللہ کے استدلال کا جواب:
غزوہ ذات الرقاع میں جو صحابى کو نماز میں تیر لگنے کے واقعے سے جو استدلال کیا گیا ہے، اس میں آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى تقریر ثابت نہیں ہے، نیز یہ صحابى کا فعل ہے، جو مذکورہ بالا مرفوع احادیث کے مقابلے میں حجت نہیں ہوسکتا ہے، مزید یہ کہ خون بالاجماع ناپاک ہے، جب ان صحابى کو تین تیر لگے تو وہ خون میں لت پت تھے ایسے میں ان کى نماز کیسے باقى رہى؟ اصل بات یہ ہے کہ اس واقعہ کا تعلق عشق سے ہے، جیسا کہ ان صحابى کے بیان سے بھى واضح ہے کہ خون بہنے کے باو جود قرآن کریم کا لطف ان کو نماز موقوف کرنے سے مانع بنا ہے، لہذا اس واقعہ سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اسى طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پھنسى کو دبانے سے متعلق صحیح بخارى میں جو اثر منقول ہے، اس کو مزید تفصیل کے ساتھ مصنف ابن أبی شیبہ میں بیان کیا گیا ہے، وه یہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے چہرے پر پھنسى تھى، حضرت نے اسے دبایا تو اس میں سے خون نکلا تو آپ نے اسے اپنى دونوں انگلیوں میں مسل دیا، پھر نماز ادا کى اور نیا وضو نہیں کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑا سا خون نکلا تھا، جس کو انگلیوں میں مسل دیا گیا، لہذا حنفیہ بھى اس بات کے قائل ہیں کہ اگر خون نہ بہے تو اس سے وضو لازم نہیں ہوتا ہے، لہذا اس سے استدلال بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اسى طرح حضرت حسن بصرى رحمہ اللہ کا قول بھى حالت عذر پر محمول کیا جائے گا۔
نیز پچھنے لگانے کے متعلق جو اثر منقول ہے اس کا جواب یہ ہے کہ پچھنے لگانے کے بعد پچھنے کی جگہ کو دھونے سے یہ مراد ہے کہ پورے بدن کو نہ دھویا جائے، صرف پچھنے کی جگہ کو دھو لینا کافی ہے، اس سے یہ استدلال درست نہیں ہے کہ خون نکلنے سے وضو لازم نہیں ہوتا ہے۔
خلاصہ بحث:
خلاصہ یہ کہ حنفیہ اور حنابلہ کا استدلال مرفوع احادیث سے ہے، جبکہ شوافع اور مالکیہ کا استدلال آثار صحابہ وتابعین سے ہے، جو کہ مرفوع احادیث کے مقابلے میں حجت نہیں بن سکتے ہیں۔
(مستفاد از شروحات حدیث: تحفۃ القارى، انعام البارى، تشریحات ترمذى، درس ترمذى)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داود: (كتاب الطهارة، باب الوضوء من الدم، رقم الحديث: 198، 141/1، ط: دار الرسالة العالمية)
عن جابر، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم -يعني في غزوة ذات الرقاع- فأصاب رجل امرأة رجل من المشركين، فحلف أن لا أنتهي حتى أهريق دما في أصحاب محمد، فخرج يتبع أثر النبي صلى الله عليه وسلم، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم منزلا، فقال: "من رجل يكلؤنا؟" فانتدب رجل من المهاجرين ورجل من الأنصار، فقال: "كونا بفم الشعب" قال: فلما خرج الرجلان إلى فم الشعب واضطجع المهاجري، وقام الأنصاري يصلي، وأتى الرجل، فلما رأى شخصه عرف أنه ربيئة للقوم، فرماه بسهم فوضعه فيه، فنزعه حتى رماه بثلاثة أسهم، ثم ركع وسجد، ثم أنبه صاحبه فلما عرف أنهم قد نذروا به هرب، ولما رأى المهاجري ما بالأنصاري من الدماء، قال: سبحان الله، ألا أنبهتني أول ما رمى قال: كنت في سورة أقرؤها، فلم أحب أن أقطعها.

سنن الترمذي: (أبواب الطهارة، باب الوضوء من القيء والرعاف، رقم الحديث: 87، 130/1، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن أبي الدرداء: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌قاء ‌فتوضأ، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق فذكرت ذلك له، فقال: صدق، أنا صببت له وضوءه.
وقال إسحاق بن منصور: معدان بن طلحة، وابن أبي طلحة أصح.
وقد رأى غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم من التابعين - الوضوء من القيء والرعاف، وهو قول سفيان الثوري وابن المبارك وأحمد وإسحاق.
وقال بعض أهل العلم: ليس في القيء والرعاف وضوء، وهو قول مالك والشافعي.
وقد جود حسين المعلم هذا الحديث، وحديث حسين أصح شيء في هذا الباب.
وروى معمر هذا الحديث عن يحيى بن أبي كثير فأخطأ فيه فقال: عن يعيش بن الوليد، عن خالد بن معدان، عن أبي الدرداء، ولم يذكر فيه الأوزاعي، وقال: عن خالد بن معدان، وإنما هو معدان بن أبي طلحة.

سنن ابن ماجه: (أبواب إقامة الصلوات والسنة فيها، باب ما جاء في البناء على الصلاة، رقم الحديث: 1221، 281/2، ط: دار الرسالة العالمية)
عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌من ‌أصابه ‌قيء أو رعاف أو قلس أو مذي، فلينصرف، فليتوضأ، ثم ليبن على صلاته، وهو في ذلك لا يتكلم".

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 125، 167/1، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن عائشة قالت: جاءت فاطمة بنت أبي حبيش إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، إني امرأة أستحاض فلا أطهر، أفأدع الصلاة؟ قال: لا، إنما ذلك عرق وليست بالحيضة، فإذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة، وإذا أدبرت فاغسلي عنك الدم وصلي. قال أبو معاوية في حديثه: وقال: ‌توضئي ‌لكل ‌صلاة حتى يجيء ذلك الوقت.
وفي الباب عن أم سلمة. حديث عائشة حديث حسن صحيح.
وهو قول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول سفيان الثوري ومالك وابن المبارك والشافعي: أن المستحاضة إذا جاوزت أيام أقرائها اغتسلت وتوضأت لكل صلاة.

الكامل في ضعفاء الرجال: (ترجمة أحمد بن الفرج بن سليمان، 313/1)
حدثنا عبد الله بن أبي سفيان الموصلي، حدثنا أحمد بن الفرج، حدثنا بقية، حدثنا شعبة عن محمد بن سليمان بن عاصم بن عمر بن الخطاب، عن عبد الرحمن بن أبان بن عثمان، عن زيد بن ثابت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌"الوضوء ‌من ‌كل ‌دم ‌سائل".
قال الشيخ: وهذا الحديث لا نعرفه إلا عن أبي عتبة، وأبو عتبة مع ضعفه قد احتمله الناس ورووا عنه. ومحمد بن سليمان الذي ذكر في هذا الحديث أظنه أراد أن يقول عمر بن سليمان، وأبو عتبة وسط بينهما، ليس ممن يحتج بحديثه، أو يتدين به، إلا أنه يكتب حديثه»

نصب الراية: (37/1، ط: مؤسسة الريان)
"الحديث السابع عشر: روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "‌الوضوء ‌من ‌كل ‌دم ‌سائل". قلت: روي من حديث تميم الداري، ومن حديث زيد بن ثابت،
أما حديث تميم الداري، فأخرجه الدارقطني في سننه عن يزيد بن خالد عن يزيد بن محمد عن عمر بن عبد العزيز عن تميم الداري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌الوضوء ‌من ‌كل ‌دم ‌سائل"، انتهى. قال الدارقطني: وعمر بن عبد العزيز لم يسمع من تميم ولا رآه، واليزيدان مجهولان، انتهى.
وأما حديث زيد بن ثابت، فرواه ابن عدي في الكامل في ترجمة أحمد بن الفرج، عن بقية ثنا شعبة عن عمر بن سليمان بن عاصم بن عمر بن الخطاب عن عبد الرحمن بن أبان بن عثمان بن عفان عن زيد بن ثابت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌الوضوء ‌من ‌كل ‌دم ‌سائل" انتهى، قال ابن عدي: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث أحمد هذا، وهو ممن لا يحتج بحديثه، ولكنه يكتب، فإن الناس مع ضعفه قد احتملوا حديثه، انتهى. وقال ابن أبي حاتم في كتاب العلل: أحمد بن الفرج كتبنا عنه، ومحله عندنا الصدق انتهى".

بدائع الصنائع: (كتاب الطهارة، فصل بيان ما ينقض الوضوء، 24/1، ط: دار الكتب العلمية)
"وأما بيان ما ينقض الوضوء فالذي ينقضه الحدث. والكلام في الحدث في الأصل في موضعين: أحدهما: في بيان ماهيته، والثاني: في بيان حكمه، أما الأول فالحدث هو نوعان: حقيقي، وحكمي أما الحقيقي فقد اختلف فيه، قال أصحابنا الثلاثة: هو خروج النجس من الآدمي الحي، سواء كان من السبيلين الدبر والذكر أو فرج المرأة، أو من غير السبيلين الجرح، والقرح، والأنف من الدم، والقيح، والرعاف، والقيء وسواء كان الخارج من السبيلين معتادا كالبول، والغائط، والمني، والمذي، والودي، ودم الحيض، والنفاس، أو غير معتاد كدم الاستحاضة،.
وقال زفر: ظهور النجس من الآدمي الحي وقال مالك في قول: هو خروج النجس المعتاد من السبيل المعتاد، فلم يجعل دم الاستحاضة حدثا لكونه غير معتاد.
وقال الشافعي: هو خروج شيء من السبيلين فليس بحدث، وهو أحد قولي مالك.
وأما قول مالك فمخالف للسنة، وهو قوله صلى الله عليه وسلم «المستحاضة تتوضأ لوقت كل صلاة» وقوله «للمستحاضة توضئي، وصلي، وإن قطر الدم على الحصير قطرا» وقوله توضئي فإنه دم عرق انفجر، ولأن المعنى الذي يقتضي كون الخروج من السبيلين حدثا لا يوجب الفصل بين المعتاد، وغير المعتاد لما يذكر، فالفصل يكون تحكما على الدليل.
وأما الكلام مع الشافعي فهو احتج بما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «قاء فغسل فمه، فقيل له: ألا تتوضأ وضوءك للصلاة؟ فقال: هكذا الوضوء من القيء» .
وعن عمر رضي الله عنه أنه حين طعن كان يصلي، والدم يسيل منه، ولأن خروج النجس من البدن زوال النجس عن البدن، وزوال النجس عن البدن كيف يوجب تنجيس البدن مع أنه لا نجس على أعضاء الوضوء حقيقة، وهذا هو القياس في السبيلين إلا أن الحكم هناك عرف بالنص غير معقول فيقتصر على مورد النص.
(ولنا) ما روي عن أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه أنه قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فغرفت له غرفة، فأكلها، فجاء المؤذن فقلت: الوضوء يا رسول الله، فقال صلى الله عليه وسلم إنما علينا الوضوء مما يخرج ليس مما يدخل وعلق الحكم بكل ما يخرج أو بمطلق الخارج من غير اعتبار المخرج، إلا أن خروج الطاهر ليس بمراد، فبقي خروج النجس مرادا.
وروي عن عائشة رضي الله عنها عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال «من قاء، أو رعف في صلاته فلينصرف، وليتوضأ، وليبن على صلاته ما لم يتكلم» ، والحديث حجة على الشافعي في فصلين في وجوب الوضوء بخروج النجس من غير السبيلين، وفي جواز البناء عند سبق الحدث في الصلاة.
وروي أنه قال لفاطمة بنت حبيش «توضئي فإنه دم عرق انفجر» أمرها بالوضوء، وعلل بانفجار دم العرق، لا بالمرور على المخرج، وعن تميم الداري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «‌الوضوء ‌من ‌كل ‌دم ‌سائل» ، والأخبار في هذا الباب وردت مورد الاستفاضة، حتى روي عن عشرة من الصحابة أنهم قالوا مثل مذهبنا، وهم عمر، وعثمان، وعلي، وابن مسعود، وابن عباس، وابن عمر وثوبان، وأبو الدرداء، وقيل في التاسع، والعاشر: إنهما زيد بن ثابت، وأبو موسى الأشعري، وهؤلاء فقهاء الصحابة متبع لهم في فتواهم، فيجب تقليدهم، وقيل: إنه مذهب العشرة المبشرين بالجنة، ولأن الخروج من السبيلين إنما كان حدثا؛ لأنه يوجب تنجيس ظاهر البدن لضرورة تنجس موضع الإصابة، فتزول الطهارة ضرورة، إذ النجاسة، والطهارة ضدان، فلا يجتمعان في محل واحد في زمان واحد، ومتى زالت الطهارة عن ظاهر البدن خرج من أن يكون أهلا للصلاة التي هي مناجاة مع الله تعالى، فيجب تطهيره بالماء ليصير أهلا لها، وما رواه الشافعي محتمل يحتمل أنه قاء أقل من ملء الفم.
وكذا اسم الوضوء يحتمل غسل الفم، فلا يكون حجة مع الاحتمال، أو محمله على ما قلنا توفيقا بين الدلائل".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 604 Dec 28, 2023
jism se khoon behne ki surat mein wazu tootne ka hukum,is maslay mein aaima arba ka maslak,dalaill or in ke jawabat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.