سوال:
اگر بیوی کو شوہر پسند نہ ہو اور وہ اللہ کی قائم کردہ حدود کی پابندی بھی نہ کر پا رہی ہو اور ہر صورت اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتی ہو، لیکن شوہر اپنی انا کی وجہ سے طلاق نہ دیتا ہو اور عورت بھی کسی صورت اس کے ساتھ رہنے پہ تیار نہ ہو تو اس صورت میں گناہ کس پر ہوگا؟ نیز اگر عورت شوہر کی نافرمانی کرے تو کیا اس کی نماز قبول نہیں ہوتی؟ کیا اس کو طلاق کے بعد ان ساری نمازوں کو دوبارہ ادا کرنا ہوگا؟ اور عورت کن وجوہات کی بنا پر شوہر سے خلع لے سکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ عقدِ نکاح کے قائم ہونے کے بعد میاں بیوی پر ایک دوسرے کے بہت سے حقوق لازم ہوجاتے ہیں، جن کی رعایت کرنا ضروری ہے، لہذا میاں بیوی میں سے جو بھی اپنے شریک حیات کی حق تلفی کرے گا، وہ گناہ گار ہوگا۔
حدیث مبارکہ میں جو شوہر کی نافرمانی میں رات گزارنے والی عورت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی نماز اس کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اور اس پر ملنے والا اجر و ثواب ضایع ہو جاتا ہے، البتہ ذمہ فارغ ہوجاتا ہے، نماز دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
عورت مختلف وجوہات کی بناء پر طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
(1) میاں بیوی کے مزاجوں میں شدید اختلاف ہو، جس کی وجہ سے اکٹھے زندگی گزارنا ممکن نہ ہو۔
(2) ایک ساتھ رہنے میں اللہ عزوجل کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔
(3) بیوی پر شوہر کی طرف سے ظلم ہو رہا ہو، مثلاً: بلا وجہ مار پٹائی کرنا وغیرہ۔
ایسی صورتوں میں شریعت نے عورت کو طلاق کے مطالبہ کا حق دیا ہے، البتہ بلا وجہ اور بغیر شرعی عذر کے عورت کی طرف سے طلاق کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے اور حدیث کے مطابق ایسی عورت پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے، جو بغیر وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 228)
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ... الخ
و قوله تعالی: (البقرۃ، الایة: 229)
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ o
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 360، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن ابن عباس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ثلاثة لا ترتفع صلاتهم فوق رءوسهم شبرا رجل ام قوما وهم له كارهون، وامراة باتت وزوجها عليها ساخط، واخوان متصارمان۔
رد المحتار: (3/229، ط: سعید)
(قوله: لو فات الإمساك بالمعروف) ما لو كان خصيًّا أو مجبوبًا أو عنينًا أو شكازًا أو مسحرًا، و الشكاز: بفتح الشين المعجمة و تشديد الكاف و بالزاي: هو الذي تنتشر آلته للمرأة قبل أن يخالطها، ثم لاتنتشر آلته بعده لجماعها، و المسحر بفتح الحاء المشددة: و هو المسحور، و يسمى المربوط في زماننا ح عن شرح الوهبانية۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی