عنوان: سفر میں قصر کرنے اور مسافر کی امامت کا حکم(1360-No)

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ تندرست کو سفر میں قصر نماز نہیں پڑھنی چاہیے، بلکہ پوری نماز پڑھنی چاہیے، اس کی وضاحت فرمادیں، مسافر شخص نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے کیسے نماز ادا کی جائے؟

جواب: واضح رہے شریعت کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے، لہذا سفر میں قصر کرنا فقہاء احناف کے نزدیک واجب ہے، چاہے مسافر تندرست ہو یا بیمار ہو، اور فقہاء کرام مسائل کے استنباط میں کسی حکم کو جب لاگو کرتے ہیں، تو اس حکم کی علت (جس وجہ سے وہ حکم لگتا ہے ) پر اس حکم کا مدار رکھتے ہیں، مثلا ریح خارج ہونے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن فقہاء کرام نے نیند کو بھی وضو توڑنے والی چیزوں میں شامل فرمایا ہے، حالانکہ نیند کی وجہ سے کوئی ریح وغیرہ خارج نہیں ہوتی، مگر عام طور پر نیند میں انسان کے اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور انسان کو سوتے ہوئے ریح خارج ہونے کا احساس نہیں ہوتا، اس لیے فقہاء نے نیند (جو خروج ریح کا سبب ہے) کو اصل علت کا قائم مقام بنا دیا اور حکم کا مدار اس پر رکھا۔
چنانچہ جب حکم کا دار ومدار سبب پر ہو گیا تو چاہے علت پائی جائے یا نہ پائی جائے(نیند کے دوران ریح خارج ہو یا نہ ہو) جب بھی نیند پائی جائے گی، تو وضو ٹوٹنے کا حکم لگایا جائے گا۔
اسی طرح سفر میں جو مسافر کو شریعت نے آسانیاں دی ہیں مثلا: نماز میں قصر اور رمضان میں روزے کو قضاء کرنے کی گنجائش وغیرہ، اس کی بھی علت " سفر کی مشقت " ہے، عام طور پر سفر میں مشقت اور پریشانی ہوتی ہے، لیکن سفر جو کہ اس مشقت کا سبب ہے، تو حکم کا مدار اس پر ہے، لہذا جب بھی سفر شرعی پایا جائے گا، سفر کی سہولتیں مسافر کو دی جائیں گی، چاہے اس سفر میں مسافر کو مشقت کا سامنا ہو یا نہ ہو اور چاہے مسافر بیمار ہو یا تندرست ہو، لہذا موجودہ دور میں نقل وحمل کے ذرائع اگر آرام دہ ہونے کی وجہ سے مشقت نہ ہو، تب بھی سفر کی سہولتیں ملیں گی۔
ان گزارشات کے بعد اب آپ کے دونوں سوالوں کے جواب حسب ذیل ہیں :
١- احناف کے نزدیک مسافر کے لیے نماز میں قصر کرنا واجب ہے، چاہے تندرست ہو یا بیمار ہو۔ اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے۔
٢- مسافر اگر چار رکعت والی نماز میں امامت کرائے، تو اسے چاہیے کہ نماز سے قبل اعلان کردے کہ میں دو رکعت کے بعد سلام پھیر دوں گا، لہذا مقیم حضرات اپنی بقیہ دو رکعتیں سلام کے متصل بعد پڑھ کر سلام پھیریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح مسلم: (271/1)
" عن موسی بن سلمة الہذلي قال: سألت ابن عبّاس -رضي اللہ عنہما- کیف أصلّي إذا کنت بمکّة إذا لم أصلّ مع الإمام؟ فقال: رکعتین سنة أبي القاسم".

اعلاء السنن: (323/7- 324)
" عن موسی بن سلمة قال: کنا مع ابن عبّاس بمکّة: فقلت إنا إذا کنا معکم صلّینا أربعًا إذا رجعنا صلینا رکعتین، فقال تلک سنة أبي القالسم ".رواہ أحمد في مسندہ. ۔۔۔۔عن نافع أن عبد اللہ بن عمر کان یصلّي وراء الإمام
بمنی أربعًا، فإذا صلّی لنفسہ، صلی رکعتین، أخرجہ الإمام مالک في موطاہ ص۵۲ وسندہ صحیح ".

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (ص: 427، ط: دار الکتب العلمیة)
" وإن اقتدی مسافر بمقیم یصلي رباعیة ولو في التشہد الأخیر في الوقت، صح اقتداوٴہ، وأتمہا أربعًا تبعًا لإمامہ، واتصال المغیر بالسبب الذي ھو الوقت".

الدر المختار: (610/2- 611)
"وصح اقتداء المقیم بالمسافر في الوقت، وبعدہ فإذا قام المقیم إلی الإتمام لا یقرأ، ولا یسجد للسہو في الأصح؛ لأنہ کاللاحق، والقعدتان فرض علیہ، وقیل: لا".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1005 Apr 22, 2019
safar mein qasar karne/karnay aur musafir/mosafir ki imaamat ka hukm/hukum/hokm , Rulings regarding the performing of qasar prayer while travelling, and can a traveller be the imam/lead the prayer?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.