سوال:
ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھولنے پر جو فری منٹس ملتے ہیں، کیا وہ صحیح ہے؟
اور مؤبائل پر جو لون لیا جاتا ہے، کیا وہ جائز ہے؟ اس پر بعد میں اضافی پیسے چارج کیے جاتے ہیں، کیا وہ سود ہے؟
جواب: (1) ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے کی حیثیت قرض کی ہے، اور قرض پر مشروط نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، لہذا کمپنی کی طرف سے رقم رکھوانے کی صورت میں ملنے والے فری منٹس اور میسیجیز کا استعمال جائز نہیں ہے۔
(2) موبائل پر ایڈوانس لون لینے کے سلسلہ میں کمپنی کی طرف سے مختلف مواقع پر مختلف جوابات دیے گئے ہیں، لہذا اگر موبائل کمپنی اضافی چارجز خدمت مہیا کرنے کے عوض وصول کرتی ہے، تو جائز ہے، اور اگر قرض دے کر اس کا عوض وصول کرتی ہے، تو سود ہے اور سخت گناہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
الاشباہ و النظائر: (226/1، ط: دار الکتب العلمیة)
کل قرض جر نفعا حرام۔
الدر المختار: (171/5، ط: دار الفکر)
(وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر) المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي
رد المحتار: (166/5، ط: دار الفکر)
قوله: كل قرض جر نفعاً حرام) أي إذا كان مشروطاً''.
و فیہ ایضاً: (64/6، ط: دار الفکر)
وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی