سوال:
مفتی صاحب ! سوال یہ پوچھنا تھا کہ کیا آفس کے اوقات میں کال اگر آجائے، اور گفتگو گپ شپ پر ہو، تو کیا یہ گناہ ہے ؟ کیونکہ وہ وقت تو صرف آفس کا ہے ؟
جواب: دفتری اوقات ملازم کے پاس امانت ہوتے ہیں، ان اوقات میں ایسا ذاتی کام کرنا، جس سے دفتر کے کام میں حرج ہوتا ہو یا آفس سربراہ کی طرف سے اجازت نہ ہو، تو جائز نہیں ہے، لیکن اگر دفتر کے کام میں حرج نہ ہوتا ہو اور آفس سربراہ کی طرف سے اجازت بھی ہو، تو فون پر بات کرنا جائز ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 58)
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًاo
الھندیۃ: (416/4- 417، ط: دار الفکر)
وَفِي فَتَاوَى الْفَضْلِيِّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: إذَا اسْتَأْجَرَ رَجُلًا يَوْمًا لِيَعْمَلَ كَذَا فَعَلَيْهِ أَنْ يَعْمَلَ ذَلِكَ الْعَمَلَ إلَى تَمَامِ الْمُدَّةِ وَلَا يَشْتَغِلُ بِشَيْءٍ آخَرَ سِوَى الْمَكْتُوبَةِ وَفِي فَتَاوَى أَهْلِ سَمَرْقَنْدَ قَدْ قَالَ بَعْضُ مَشَايِخِنَا رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى: إنَّ لَهُ أَنْ يُؤَدِّيَ السَّنَةَ أَيْضًا وَاتَّفَقُوا أَنَّهُ لَا يُؤَدِّيَ نَفْلًا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی