سوال:
حضرت ! ہندوستان میں صرف سیونگ اکاؤنٹ ہی کھولا جا سکتا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ صرف کاروباری حضرات کیلئے مخصوص ہے،
ایک دوست نے پوچھا ہے : مجھے مفتی صاحب سے پوچھ کر مسئلہ بتا دیں کہ بینک كے سود کا پیسہ کیا اپنے غریب رشتےدار کو دے سکتے ہیں ؟ اگر نہیں دے سکتے تو سود کا پیسہ كہیں خرچ کر سکتے ہیں یا یہ کہ کسی ہندو کو دے سکتے ہیں؟
جواب: صورت مسئولہ میں اس سودی اکاؤنٹ سے صرف اپنی اصل رقم وصول کرلیں، اس پر ملنے والا منافع (سود ) وصول ہی نہ کریں، اس لیے کہ سود کا استعمال جس طرح ناجائز ہے، اسی طرح سود کا وصول کرنا بھی ناجائز اور حرام ہے، اور اگر وصول کر لیا ہو تو اسے ثواب کی نیت کے بغیر غرباء وفقراء میں تقسیم کردیں، چاہے اپنے مستحق قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 78- 79)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
رد المحتار: (99/5، ط: دار الفکر)
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه
بذل المجہود: (359/1، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی