resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: جس نے تعویذ پہنا اس نے شرک کیا، حدیث کی تحقیق (1430-No)

سوال: اس حدیث کی تحقیق فرمادیں: سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌ﷺ کے پاس ایک گروہ آیا، آپ ﷺ نے ان میں سے نو آدمیوں سے بیعت لے لی اور ایک سے ہاتھ روک لیا، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے نوآدمیوں سے بیعت لے لی ہے اور اس ایک کو چھوڑ دیا ہے۔ آپ ‌ﷺ نے فرمایا: اس نے تمیمہ لٹکایا ہوا ہے، پس اس بندے نے اپنا ہاتھ داخل کیا اور اس تعویذ کو کاٹ دیا اور آپ ‌ﷺ نے اس سے بیعت لے لی، پھر آپ ‌ﷺ نے فرمایا: جس نے بھی تمیمہ لٹکایا، اس نے شرک کیا۔

جواب: سوال میں ذکرکرده روایت سند کے اعتبار سے ’’صحیح‘‘ ہے ،لہذا اس کو بیان کیا جاسکتا هے۔ذیل میں اس روایت کاترجمہ ،تخریج ،اسنادی حیثیت اور مختصر تشریح ذکرکی جاتی ہے:
ترجمه :
حضرت عقبہ بن عامر ‌رضی ‌الله ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌ﷺ کے پاس ایک گروہ آیا، آپ ﷺ نے ان میں سے نو آدمیوں سے بیعت لے لی اور ایک سے ہاتھ روک لیا، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے نوآدمیوں سے بیعت لے لی ہے اور اس ایک کو چھوڑ دیا ہے۔ آپ ‌ﷺ نے فرمایا: اس نے تمیمہ( تعویذ)ٹکایا ہوا ہے، پس اس بندے نے اپنا ہاتھ داخل کیا اور اس تعویذ کو کاٹ دیا اور آپ ‌ﷺ نے اس سے بیعت لے لی، پھر آپ ‌ﷺ نے فرمایا: جس نے بھی تعویذ لٹکایا، اس نے شرک کیا۔(مسند احمد،حدیث نمبر: 17422) (۱)
تخریج الحدیث:
۱۔امام احمدبن حنبل (م241ھ)نے’’مسندأحمد‘‘(28/ 637،رقم الحديث: 17423،ط:مؤسسة الرسالة)میں ذکر کیا ہے۔
۲۔حافظ حارث بن ابی اسامه (م282ھ)نے’’مسند حارث‘‘(2/ 600،رقم الحديث: 563،ط:مركز خدمة السنة) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔امام طبرانی (م 360ھ)نے’’المعجم الکبیر‘‘(" (17 / 319،رقم الحديث: 885،ط:مكتبة ابن تيمية) میں ذکر کیا ہے۔
۴۔امام حاکم(م405ھ)نے ’’مستدرک‘‘(4 / 243، رقم الحديث: 7513،ط:دارالكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
مذکوره روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ منذری(م656ھ)فرماتے ہیں :اس روایت کو امام احمد اور حاکم نے نقل کیا ہے اور احمد کے روات ثقہ ہیں۔
علامہ ہیثمی (م807ھ)فرماتے ہیں :اس روایت امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہےاور اس کے رجال ثقہ ہیں۔(۲)
تشریح:
واضح رہے کہ اس حدیث میں جس تعویذ سے منع کیا گیا ہے وه زمانۂ جاہلیت کے شرکیہ دم ہیں یا وه ڈوریاں جسے مشرکین مؤثر بالذات سمجھ کر بچوں کے گلے میں نظربد سے بچانے کےلیے ڈالتےتھے، البتہ وه تعویذات جن میں قرآن یا اﷲتعالی کے نام لکھے ہوں،اسے لکھ کر بچوں یا بیمار وں کے گلے میں لٹکانا یا پانی میں گھول کر پلانا کئی صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین اور تابعین کرام رحمہم الله سے ثابت ہے۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مسندأحمد:( 28/ 637،رقم الحديث: 17423،ط:مؤسسة الرسالة)
عقبة بن عامر الجهني، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقبل إليه رهط، فبايع تسعة وأمسك عن واحد، فقالوا: يا رسول الله، بايعت تسعة وتركت هذا؟ قال: «إن عليه تميمة» فأدخل يده فقطعها، فبايعه، وقال: «من علق تميمة فقد أشرك»
أخرجه الحارث في ’’مسنده‘‘(2/ 600)( 563) والطبراني في ’’معجمه الكبير‘‘(17 / 319)( 885) والحاكم في ’’المستدرك‘‘(4 / 243)(7513)

(۲) و هذا الحديث أورده المنذري في ’’الترغيب‘‘(4/157)(5242)وقال: رواه أحمد والحاكم واللفظ له ورواة أحمد ثقات ،وقال الهيثمي :(5/103)(8398) رواه أحمد، والطبراني، ورجال أحمد ثقات.

(۳) تکملة فتح الملهم: (317/4- 318، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
ثم ان الاصل فی باب الرقیة أن یکون بقرأة القرآن الکریم أو بعض أسماء الله تعالی أو صفاته، وینفث بھا المریض ، وقدثبت ذلک من النبی ﷺفی عدة أحادیث،أماکتابة المعوذات و تعلیقھا فی عنق الصبیان و المرضی، أو کتابتھا و سقی مدادھا للمریض ،فقد ثبت عن عدة من الصحابة والتابعین رضی الله عنھم ۔۔۔۔ و فی ھذه الآثارحجة علی من زعم فی عصرنا أن کتابة التعاویذ وسقیھا أوتعلیقھا ممنوع شرعاً وقد توغل بعضھم حتی زعم أنه شرک،واستدل بما أخرجه أبو داؤد(رقم ۳۸۸۳)عن زینب امرأة عبد اﷲ عن عبد اﷲ بن مسعود رضی الله عنه قال سمعت رسول الله ﷺ یقول:’’ان الرقی والتمائم والتولة شرک‘‘ولکن فی تمام ھذا الحدیث مایردّ علی ھذا الاستدلال، وفیه’’قالت:قلت:لم تقول ھذا ؟ وا ﷲ لقد کانت عینی تقذف(؟)وکنت أختلف الی فلان الیھودیّ یرقینی،فاذا رقانی سکنت فقال عبد اﷲ:انما ذلک عمل الشیطان،کان ینخسھا بیده ، فاذا رقاھا کف عنھا،انما کان یکفیک أن تقولی کم کان رسول اﷲاقول:’’أذھب البأس رب الناس… ‘‘الخ۔ فدل ھذا الحدیث صراحة علی أن الرقیة الممنوعة فی الحدیث انما ھی رقیة أھل الشرک التی یستمدون فیھا بالشیاطین وغیرھا۔أما الرقیة التی لا شرک فیھا فانھا مباحة،و قد ثبتت عن النبیﷺ بأحادیث کثیرة ، وکذلک الحال فی التمائم،فانھا جمع تمیمة ، وکانت خرزات کانت العرب تعلّقھا علی أولادھم ، یزعمون أنھا مؤثرة بذاتھاقال الشوکانی:و ھو یشرح حدیث أبی داؤد فی نیل الأوطار۸/۱۷۷’’جعل ھذه الثلاثة من الشرک لاعتقادھم أن ذلک یؤثر بنفسه و قال ابن عابدین فی ردالمحتار ۶:۳۶۳، وفي الشلبي عن ابن الأثير التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم فأبطلها الإسلام۔۔۔۔لأنھم یعتقدون أنھا تمام الدواءو لشفاء م بل جعلوھا شرکا لأنھم أرادوا بھ دفع المقادیرالمکتوبة علیھم و طلبوا دفع الأذی من غیر الله تعالی الذی ھو دافعه۔فتبین بھذاأن التمائم المحرمة لا علاقة لھا بالتعاویذ المکتوبة المشت ملة علی آیات ،من القرآن أو شیئ من الذکر فإنھامباحة عندجماھیرفقھاء الأمة بل استحبھابعض العلماء إذا کانت بأذکار مأثورة کما نقل عنھم الشوکانی فی النیل ، والله اعلم۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Taweez se mutaliq ek hadees ki tehqiq, Researching a hadith about amulets

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees