سوال:
میں نے پانچ سال قبل نکاح کیا، بیوی سے صرف ایک مرتبہ اپنی ساس کی موجودگی میں ہاتھ ملایا ہے، اس کے علاوہ نہیں ملا ہوں، رخصتی بھی اب تک نہیں ہوئی ہے۔ میں سعودیہ میں کام کے سلسلے میں آیا ہوں، میں نے اپنی اہلیہ کو قسم دی تھی کہ فلاں پڑوسن کے گھر مت جانا، اگر گئی تو تجھے طلاق ہے۔ اس کے چھ مہینے بعد مزید دو گھروں سے (دوسری پڑوسن اور ماموں کے گھر) سے وقفے وقفے سے اسی طرح قسم دے کر طلاق کی شرط پر منع کیا، لیکن مجھے اب اس نے بتایا کہ وہ پہلی قسم کے اکیس دن بعد ہی اس پڑوسن کے گھر چلی گئی تھی اور مزید جن دو گھروں سے شوہر نے چھ مہینے بعد منع کیا تھا، ان میں بھی قسم کے کچھ دنوں بعد جاچکی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ میری بیوی پر کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر شوہر اپنی منکوحہ کو رخصتی اور خلوت صحیحہ سے پہلے ہی علیحدہ علیحدہ جملوں کے ساتھ دو یا تین طلاقیں دے دے تو عورت پہلی طلاق کے ساتھ ہی شوہر کے نکاح سے نکل جاتی ہے اور اس پر بعد کی طلاقیں واقع نہیں ہوتیں، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں جس وقت آپ کی منکوحہ پہلی مرتبہ اس پڑوسن کے گھر چلی گئی، جس کے گھر جانے پر آپ نے طلاق معلق کی تھی، تب سے آپ دونوں کا نکاح ٹوٹ چکا ہے اور بعد کی دو طلاقیں اس پر واقع نہیں ہوئی ہیں۔ اب اگر آپ دونوں میاں بیوی کی طرح رہنا چاہتے ہیں تو باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا لازم ہوگا، اس صورت میں نئے نکاح کے بعد آپ کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
نیز سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر بیوی کو قسم دینے سے مراد یہ ہو کہ بیوی نے ہر دفعہ قسم کھا کر یہ کہا تھا کہ میں فلاں کے گھر نہیں جاؤں گی تو ان تینوں گھروں میں جانے کی وجہ سے وہ قسمیں ٹوٹ چکی ہیں، جس کی وجہ سے اس عورت پر قسم کے تین کفارہ ادا کرنا لازم ہوں گے۔
قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس مساکین میں سے ہر مسکین کو پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدی جائے یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیا جائے، اور اگر قسم کھانے والا مذکورہ بالا امور میں سے کسی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر کفارہ کی نیت سے مسلسل تین دن تک روزے رکھنے سے بھی قسم کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (286/3، ط: دار الفكر)
(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل وعم التفريق.
(قوله بعطف) أي في الثلاثة سواء كان بالواو أو الفاء أو ثم أو بل ح.
(قوله ولذا) أي لكونها بانت لا إلى عدة ح.
و فیھما ایضاً: (355/3، ط: دار الفكر)
(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا، فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها
(قوله مطلقا) أي سواء وجد الشرط في الملك أو لا كما يدل عليه اللاحق ح (قوله لكن إن وجد في الملك طلقت) أطلق الملك فشمل ما إذا وجد في العدة.
الفتاوی الھندیة: (374/1، ط: دار الفكر)
ولو قال لغير المدخول بها أنت طالق وطالق إن دخلت الدار بانت بالأولى ولم تتعلق الثانية بالدخول وفي المدخولة تقع واحدة في الحال وتتعلق الثانية بالدخول إن دخلت في العدة وقعت، كذا في الظهيرية.
البحر الرائق: (316/4، ط: دار الكتاب الإسلامي)
وفي التجريد عن أبي حنيفة إذا حلف بأيمان فعليه لكل يمين كفارة والمجلس والمجالس سواء.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی