سوال:
ایک غیر شادی شدہ شخص نے یہ جملہ کہا کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو ایک طلاق اور اگر فلاں کام (دوسرا کام جو پہلے سے مختلف ہے) کیا تو تین طلاق، اس کے بعد اس نے پہلے والا کام کرلیا جس کو ایک طلاق سے معلق کیا تھا اور پھر دوسرا کام بھی کرلیا جس سے تین طلاق کو معلق کیا تھا، اب اگر وہ شادی کرتا ہے تو اس کو ایک طلاق ہوگی یا تین طلاق ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ طلاق کے لیے ضروری ہے کہ جس عورت کو طلاق دی جارہی ہو، وہ عورت نکاح میں موجود ہو یا اگر وہ نکاح میں موجود نہ ہو، تو ملک یا سبب ملک کی طرف نسبت کرکے طلاق دی گئی ہو۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں غیر شادی شدہ مرد کے مذکورہ الفاظ لغو ہیں، اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی، اب اگر مذکورہ شخص کسی خاتون سے نکاح کرتا ہے تو ان سابقہ الفاظ کی وجہ سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (244/1، ط: دار احياء التراث العربي)
و لا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك لأن الجزاء لا بد أن يكون ظاهرا ليكون مخيفا فيتحقق معنى اليمين وهو القوة والظهور بأحد هذين والإضافة إلى سبب الملك بمنزلة الإضافة إليه لأنه ظاهر عند سببه فإن قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق ثم تزوجها فدخلت الدار لم تطلق لأن الحالف ليس بمالك ولا أضافه إلى الملك أو سببه ولا بد من واحد منهما.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی