سوال:
مفتی صاحب! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو "نورِ خدا" کہنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی اس عقیدہ کی بنیاد پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "نورِ خدا" کہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے نور کا ایک حصہ یا اس کا جز اور مادہ ہیں، جو لباسِ بشریت میں جلوہ افروز ہوئے تو یہ قطعاً ناجائز ہے، کیونکہ (نعوذ باللہ) یہ بعینہ وہی عقیدہ ہے جو عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں رکھتے ہیں کہ وہ خدا تھے جو لباسِ بشریت میں آئے، اسلام میں ایسے لغو اور باطل عقیدہ کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی محض اضافتِ تشریفی (آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی شرافت اور عظمت) کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو "نورِ خدا" اس معنی میں کہے کہ آپ ﷺ پر اللہ جل شانہ کے نور کا فیض اور اس کی برکات ہیں تو اس کی گنجائش ہے، تاہم اس اعتبار سے بھی نورِ خدا کہنے سے بچنا چاہیے، کیونکہ کچھ لوگ غلط عقیدہ کی بنیاد پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو نورِ خدا کہتے ہیں، جن کو دیکھ کر بہت سے سادہ لوح مسلمان بھی یہ کہنا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ ان کو حقیقت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا، لیکن ان کے کہنے کی وجہ سے اس غلط عقیدہ کو ایک طرح سے ترویج مل جاتی ہے، لہذا عام طور پر اضافتِ تشریفی کے طور پر بھی یہ کلمات کہنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة: (ص: 42، ط: مكتبة الشرق الجديد)
والذي أوقعهم في هذه الورطة الظلماء هو ظاهر رواية عبد الرزاق في مصنفة عن جابر قال: قلت يا رسول الله بأبي أنت وأمي أخبرني عن أول شيء خلقه الله قبل الأشياء، فقال: يا جابر! إن الله خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره، فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء الله، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ولا سماء ولا أرض ولا شمس ولا قمر ولا جني ولا إنس. الحديث المذكور بتمامه في المواهب اللدنية وغيره. وقد أخطأوا في فهم المراد النبوي ولم يعلموا أن الإضافة في قوله من نوره كالإضافة في قوله تعالى في قصة خلق آدم ونفخت فيه من روحي وكقوله تعالى من قصة سيدنا عيسى وروح منه، وكقولهم بيت الله الكعبة والمساجد وقولهم روح الله لعيسى وغير ذلك.
قال الزرقاني في شرح المواهب عند شرح قوله من نوره إضافة تشريف وإشعار بأنه خلق عجيب، وأن له شأنا له مناسبة ما إلى الحضرة الربوبية على حد قوله تعالى ونفخ فيه من روحه، وهي بيانية أي من نور هو ذاته لا بمعنى إنها مادة خلق نوره بل بمعنى تعلق الإرادة به بلا واسطة شيء في وجوده. انتهى.
نشر الطيب في ذكر الحبيب: (ص: 11، ط: مشتاق بک کارنر)
اختلاف امت اور صراط مستقیم: (45/1، ط: مکتبہ لدھیانوی)
خیر الفتاویٰ: (146/1، ط: مکتبہ امدادیہ ملتان)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی