عنوان: غار میں تین پھنس جانے والے افراد کے واقعے سے متعلق حدیث کی تحقیق(14559-No)

سوال: مفتی صاحب! السلام علیکم! کیا احادیث میں درج ذیل واقعہ ملتا ہے؟ ایک شخص نے ایک بندے کو کچھ بھیڑ بکریاں وغیرہ دے چلا گیا، پھر کافی عرصہ بعد واپس آکر اپنے جانوروں کا پوچھا۔ اس نے کہا کہ ہاں یہ سامنے بھیڑ بکریوں کا سارا ریوڑ تمہارا ہے، تم نے مجھے جو بھیڑ یا بکری دی تھی یہ سب اسی کے بچے ہیں تو پہلا شخص وہ سارا ریوڑ لے کر چلا گیا اور دوسرا اس پہ قطعاً خفا نہیں ہوا۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ واقعہ بخاری شریف میں موجود ایک طویل روایت میں ہے، لہذا اس کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
ذیل میں اس روایت کا مکمل ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے:
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: پرانے زمانے میں (بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منہ بند ہو گیا۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لیے۔ اس کے بہت دن بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو تو غار کا منہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے، لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا، مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا (کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور کر دے۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی۔ اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔ آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ۔ میں (یہ سنتے ہی) کھڑا ہو گیا اور سو اشرفی بھی واپس نہیں لی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:3465)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (رقم الحديث: 3465، 172/4، ط: دار طوق النجاة)

عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌بينما ‌ثلاثة ‌نفر ‌ممن ‌كان ‌قبلكم ‌يمشون إذ أصابهم مطر فأووا إلى غار فانطبق عليهم فقال بعضهم لبعض إنه والله يا هؤلاء لا ينجيكم إلا الصدق فليدع كل رجل منكم بما يعلم أنه قد صدق فيه فقال واحد منهم: اللهم إن كنت تعلم أنه كان لي أجير عمل لي على فرق من أرز فذهب وتركه وأني عمدت إلى ذلك الفرق فزرعته فصار من أمره أني اشتريت منه بقرا وأنه أتاني يطلب أجره فقلت اعمد إلى تلك البقر فسقها فقال لي إنما لي عندك فرق من أرز فقلت له اعمد إلى تلك البقر فإنها من ذلك الفرق فساقها فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا فانساحت عنهم الصخرة، فقال الآخر: اللهم إن كنت تعلم كان لي أبوان شيخان كبيران فكنت آتيهما كل ليلة بلبن غنم لي فأبطأت عليهما ليلة فجئت وقد رقدا وأهلي وعيالي يتضاغون من الجوع فكنت لا أسقيهم حتى يشرب أبواي فكرهت أن أوقظهما وكرهت أن أدعهما فيستكنا لشربتهما فلم أزل أنتظر حتى طلع الفجر فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا فانساحت عنهم الصخرة حتى نظروا إلى السماء، فقال الآخر: اللهم إن كنت تعلم أنه كان لي ابنة عم من أحب الناس إلي وأني راودتها عن نفسها فأبت إلا أن آتيها بمائة دينار فطلبتها حتى قدرت فأتيتها بها فدفعتها إليها فأمكنتني من نفسها فلما قعدت بين رجليها فقالت اتق الله ولا تفض الخاتم إلا بحقه فقمت وتركت المائة دينار فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا ففرج الله عنهم فخرجوا.»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 365 Jan 11, 2024
ghar mein teen phans jane wale afrad ke waqa se mutaliq hadis ki tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.