عنوان: نمازِ جنازہ میں ایک تکبیر کے رہ جانے اور دفنانے کے بعد جنازہ پڑھنے کا حکم(14560-No)

سوال: مفتی صاحب! آج ہم نے ایک مسجد میں نمازہ جنازہ پڑھا، امام صاحب چوتھی تکبیر کہنا بھول گئے اور تیسری ‏تکبیر کے بعد دعا وغیرہ پڑھ کر سلام پھیردیا، نماز کے بعد مقتدیوں نے ان کو بتایا بھی کہ آپ نے چوتھی تکبیر نہیں ‏کہی ہے تو امام صاحب کہنے لگے کہ نماز جنازہ ادا ہوگیا ہے، اس میں غلطی ہونے پر دہرایا نہیں جاتا۔
مفتی صاحب! براہ کرم آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ جنازہ ادا ہوگیا ہے یا دوبارہ دہرانے کی ضرورت ہے؟ ‏اگر دہرانا ضروری ہے تو اب تو تدفین بھی ہوگئی ہے، اب دہرانے کی کیا صورت ہوگی؟

جواب: واضح رہے کہ نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں فرض ہیں اور ہر تکبیر نماز کا رکن اور ایک رکعت کے قائم مقام ‏ہے، لہٰذا اگر کوئی تکبیر رہ جائے تو نمازِ جنازہ ادا نہیں ہوتی اور اس کا دہرانا لازم ہوتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتا امام نے تین تکبیریں کہی ہیں تو نماز جنازہ ادا نہیں ہوئی اور اس کا اعادہ لازم ہوگیا، تاہم دفن کرنے کے بعد قبر پر ‏جاکر میت کو نکالے بغیر اس وقت تک نمازِ جنازہ پڑھی جاسکتی ہے جب تک میت کے جسم کے گلنے سڑنے اور پھٹنے ‏کا غالب گمان نہ ہوجائے، جس کی اکثر مدت فقہاء کرام نے تین دن بیان کی ہے (البتہ علاقہ اور موسم کے لحاظ سے یہ تین دن سے کم زیادہ بھی ہوسکتی ہے، جو تجربہ کار حضرات سے معلوم کیا جاسکتا ہے) اس مدت کے بعد قبر پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع‎:‎‏ (315/1، ط: دار الكتب العلمية)‏
ولو دفن بعد الغسل قبل الصلاة عليه صلي عليه في القبر ما لم يعلم أنه تفرق ‏وفي الأمالي عن أبي يوسف أنه قال: يصلى عليه إلى ثلاثة أيام هكذا ذكر ابن ‏رستم عن محمد، أما قبل مضي ثلاثة أيام فلما روينا أن النبي - صلى الله عليه ‏وسلم - صلى على قبر تلك المرأة فلما جازت الصلاة على القبر بعد ما صلي ‏على الميت مرة فلأن تجوز في موضع لم يصل عليه أصلا أولى.‏
وأما بعد الثلاثة أيام لا يصلى؛ لأن الصلاة مشروعة على البدن وبعد مضي ‏الثلاث ينشق ويتفرق فلا يبقى البدن وهذا؛ لأن في المدة القليلة لا يتفرق وفي ‏الكثيرة يتفرق، فجعلت الثلاث في حد الكثرة؛ لأنها جمع والجمع ثبت بالكثرة؛ ‏ولأن العبرة للمعتاد والغالب في العادة أن بمضي الثلاث يتفسخ ويتفرق ‏أعضاؤه، والصحيح أن هذا ليس بتقدير لازم؛ لأنه يختلف باختلاف الأوقات ‏في الحر والبرد، وباختلاف حال الميت في السمن والهزال، وباختلاف الأمكنة ‏فيحكم فيه غالب الرأي وأكبر الظن، فإن قيل: روي عن النبي صلى الله ‏عليه وسلم: «أنه صلى على شهداء أحد بعد ثمان سنين» فالجواب أن معناه ‏‏-والله أعلم- أنه دعا لهم قال الله تعالى: {وصل عليهم إن صلاتك سكن ‏لهم} [التوبة: 103] ، والصلاة في الآية بمعنى الدعاء، وقيل: إنهم لم تتفرق ‏أعضاؤهم فإن معاوية لما أراد أن يحولهم وجدهم، كما دفنوا فتركهم.‏

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق: (240/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية بولاق، ‏القاهرة)‏
‏ قال - رحمه الله -: (فإن دفن بلا صلاة صلى على قبره ما لم يتفسخ) إقامة ‏للواجب بقدر الإمكان والمعتبر في ذلك أكبر الرأي على الصحيح؛ لأنه يختلف ‏باختلاف الزمان والمكان والأشخاص.‏

المبسوط للسرخسي: (59/1، ط: دار المعرفة)‏
الانتفاخ دليل تقادم العهد، وأدنى حد التقادم ثلاثة أيام.‏‎ ‎‏(ألا ترى) أن من ‏دفن قبل أن يصلى عليه يصلى على قبره إلى ثلاثة أيام، ولا يصلى بعد ذلك؛ ‏لأنه يتفسخ في هذه المدة‎.‎

الدر المختار: (212/2، ط: دار الفكر)‏
‏(وهي أربع تكبيرات) كل تكبيرة قائمة مقام ركعة‏‎.‎

الفتاوى الهندية: (164/1، ط: دار الفكر)‏
وصلاة الجنازة أربع تكبيرات ولو ترك واحدة منها لم تجز صلاته، هكذا في ‏الكافي.‏

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 243 Jan 12, 2024
namaz e janaza mein ek takbeer ke reh jane or dafnane ke bad janaza parhne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Funeral & Jinaza

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.