سوال:
میرے داماد عمران نے مجھے فون کیا اور کہا کہ(راشہ دہ نوہ سیے دے بوزہ ما طلاقہ کڑی دہ) یعنی آجاؤ اپنی نواسی کو لے کر جاو، میں نے اسے طلاق دے دی ہے، پانچ دفعہ یہ الفاظ کہے، جبکہ ابھی عمران اس سے منکر ہے اور کہتا ہے کہ میں نے فون تو کیا ہے، لیکن طلاق نہیں دی۔ شوہرعمران کا بیان ہے کہ میں نے اپنے سسر کے والد کو فون کیا اور فون پر بتایا کہ (جی راشہ خپلہ دہ نوسے دے بوزہ دہ مالہ ندہ پکارکہ نہ زہ دےلہ طلاق ور کوم ) آجائیں اپنی نواسی کو لے کر جائیں، ورنہ میں اس کو طلاق دے دوں گا اور ان کنایہ الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں تھی، جبکہ بیوی کا بیان ہے کہ میرے شوہر نے کہا کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں (زہ تہ لہ طلاق درکوم) صرف ایک دفعہ کہا اور اس کے بعد ہمبستری بھی کی اور میں اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہوں۔ جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
تنقیح:
آپ کے سوال میں کچھ ابہام ہے، آپ درج ذیل باتوں کی وضاحت فرمائیں:
1) آپ کا داماد فون پر ایک طلاق کے واقعے (جس کا بیوی نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے) کی خبر دے رہا تھا یا کوئی نئی طلاق دے رہا تھا؟
2) اگر نئی طلاق دے رہا تھا تو کیا اس پر کوئی گواہ ہیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ آپ کی بیٹی کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جواب تنقیح:
1) بیٹی کے بیان کے مطابق طلاق فون کرکے دیا تھا یہ ایک وہی طلاق ہے جس کے بارے میں شوہر نے دادا کو فون پر بتا دیا تھا۔
2) اس پر کوئی گواہ کسی کے پاس نہیں اور بیوی اپنے دادا کے بیان کی تکذیب کرتی ہے کہ میرے شوہر نے صرف ایک طلاق دی ہے پانچ دفعہ طلاق نہی دی۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں شوہر نے بیوی کو جو ایک دفعہ کہا "طلاق دیتا ہوں" اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے، جس کے بعد عدت میں رجوع ہوسکتا ہے، چونکہ شوہر نے ان الفاظ کے ادا کرنے کے بعد عدت میں ہمبستری کی ہے، اس لیے یہ رجوع شمار ہوگا۔ اس واقعے کے بعد مرد کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہا ہے۔
لڑکی کے دادا نے جو دعویٰ کیا ہے، چونکہ اس پر کوئی گواہ نہیں ہیں، اس لیے اس پر قضاءً طلاق کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے، البتہ شوہر کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر اس نے واقعی مزید طلاقیں دے رکھی ہیں تو اب انکار کرنے اور گواہ نہ ہونے سے بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، بلکہ دیانتاً طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق، 491/4، ط: رشیدیة)
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا۔"
الجوھرۃ النیرة: (کتاب الشهادۃ، 326/2، ط: امدادیة، ملتان)
"وما سوی ذلک من الحقوق یقبل فیہ رجلان أو رجل وامرأتان سواء کان الحق مالاً أو غیر مال مثل النکاح والعتاق والطلاق الخ".
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الطلاق، مطلب فی قول البحر)
"والمرأۃ کا لقاضی إذا سمعتہ أو أخبرها عدل لا یحل لها تمکینه والفتویٰ علی أنه لیس لها قتله ولا تقتل نفسها بل تفدی نفسها بمال أوتھرب (إلی قوله) فان حلف ولا بینة لها فالإثم علیه۔"
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی