سوال:
اگر کوئی شخص کسی کو ناجائز بد دعا دے یعنی کوئی شخص بے قصور ہو، اس کے باوجود اس کوبد دعا دے کہ اللہ تمہاری کوئی دعا قبول نہ کرے (خدانخواستہ )تو کیا اللہ اس کی یہ بد دعا قبول کریں گے؟ نیز اگر کوئی کسی کو ناجائز بد دعا دے اور اس کو خدانخواستہ لگ جائے تو اس کا اثر زائل کرنے کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ کیا کوئی طریقہ ہے کہ اس بد دعا کا اثر زائل ہو جائے یا جس نے ناجائز بد دعا دی ہو، اس سے توبہ اور دعا کرنا کو کہنا چاہیے؟
جواب: حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: "جو کوئی بندہ اللہ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ اسے یا تو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے یا اس دعا کے نتیجہ میں اس دعا کے مثل اس پر آئی ہوئی مصیبت دور کر دیتا ہے، جب تک اس نے کسی گناہ یا قطع رحمی (رشتہ داری توڑنے) کی دعا نہ کی ہو". (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3381)
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ گناہ کے کام کی دعا اللہ تعالی کے ہاں قبول نہیں ہوتی اور بلا وجہ کسی کو بد دعا دینا بھی گناہ کا کام ہے، لہذا جس شخص کو بلا وجہ بد دعا دی جائے، اس پر اس بد دعا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 3381، ط: دار الغرب الاسلامی)
حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من احد يدعو بدعاء إلا آتاه الله ما سال، او كف عنه من السوء مثله ما لم يدع بإثم او قطيعة رحم ". وفي الباب، عن ابي سعيد، وعبادة بن الصامت.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (1525/4، ط: دار الفکر)
" لم يدع بإثم ": مثل أن يقول: اللهم قدرني على قتل فلان وهو مسلم، أو اللهم ارزقني الخمر ... أو اللهم خلد فلانا المؤمن في النار، ... ومنه الدعاء بلفظ أعجمي جهل معناه، ومنه الدعاء على من لم يظلمه مطلقا، أو على من ظلمه بأزيد مما ظلمه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی