سوال:
السلام علیکم! جناب پوچھنا یہ تھا کہ ہمارا آفس شفٹ ہوا ہے تو جس بلڈنگ میں شفٹ ہوا ہے، وہاں پارکنگ میں ایک جگہ نماز کے لئے بنائی گئی ہے، جہاں باقاعدہ جماعت کے ساتھ نماز ادا ہوتی ہے، یہاں تک کہ جمعہ بھی ہوتا ہے، لیکن میں نے وہاں اکثر دیکھا ہے کہ جماعت ختم ہونے کے بعد لوگ دوسری جماعت کھڑی کردیتے ہیں، جس میں کوئی بھی امام بن جاتا ہے، کوئی بھی سے مراد داڑھی والے حافظ قاری وغیرہ۔ لہذا وضاحت کردیں کہ کیا اس جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں یا بہتر ہے کہ اپنی انفرادی نماز پڑھی جائے؟
جواب: واضح رہے کہ جماعتِ ثانیہ کی ممانعت کا تعلق مسجدِ شرعی سے ہے، اور مسجدِ شرعی سے مراد وہ مسجد ہے، جو کسی کی ملکیت نہ ہو، اور باقاعدہ طور پر وقف کردی گئی ہو، لہذا پوچھی گئی صورت میں بلڈنگ کی پارکنگ میں نماز کے لیے مختص جگہ اگر باقاعدہ مسجدِ شرعی نہیں ہے، بلکہ ایک مصلیٰ کے طور پر وہ جگہ بنائی گئی ہے تو اس میں دوسری جماعت قائم کرنا یا اس میں شامل ہونا جائز ہے، اور اگر وہ جگہ باقاعدہ وقف کرکے مسجد کے نام پر بنائی گئی ہے تو مسجد شرعی ہونے کی وجہ سے وہاں جماعتِ ثانیہ قائم کرنا مکروہ ہوگا، لہذا اس صورت میں وقتِ مقرہ پر قائم کی جانے والی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہتمام کیا جائے، اور اگر کہیں وقت مقررہ کی جماعت رہ جائے تو دوسری جماعت کے بجائے اپنی الگ نماز پڑھی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (356/4، ط: دار الفکر)
وفي القهستاني ولا بد من إفرازه أي تمييزه عن ملكه من جميع الوجوه فلو كان العلو مسجدا والسفل حوانيت أو بالعكس لا يزول ملكه لتعلق حق العبد به كما في الكافي.
و فيه أيضًا: (358/4، ط: دار الفكر)
قال في البحر: وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه.
الدر المختار: (552/1، ط: دار الفكر)
ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی