سوال:
ہمارے ہاں ایک شخص جمعہ کو وعظ کہنے آتے ہیں اور وہ دوسری مسجد کے مؤذن بھی ہیں تو وہ وعظ کہہ کر اپنی مسجد چلے جاتے ہیں آج ہمارے امام صاحب جو خطبہ کہتے ہیں لیٹ ہوگئے تو وہ صاحب خطبہ دینے کی غرض سے رک گئے لیکن جیسے دوسری اذان مکمل ہوئی تو امام صاحب پہنچ گئے اور وہ صاحب اذان اور خطبہ کے درمیان اپنی مسجد چلے گئے کیا ان کا یہ جانا درست ہے؟ ہم نے سنا ہے کہ اذان کے بعد مسجد سے نکلنا مکروہ تحریمی یے
جواب: واضح رہے کہ اذان کے بعد مسجد سے نکلنا عام حالات میں مکروہِ تحریمی ہے، لیکن کسی حاجت یا ضرورت کے لئے نکلنا پڑے تو بلا کراہت جائز ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ خطیب چونکہ دوسری مسجد میں مؤذن ہے، اس لیے اپنی مسجد میں اذان کی غرض سے مسجد سے نکلتا ہے تو یہ بلا کراہت جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، تاہم لوگوں کی بدگمانی سے بچنے کے لیے بہتر یہی ہے کہ ایسا شخص بیان ختم ہونے کے بعد اذان شروع ہونے سے پہلے پہلے مسجد سے نکل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (54/2، ط: دار الفكر)
(وكره) تحريما للنهي (خروج من لم يصل من مسجد أذن فيه) جرى على الغالب والمراد دخول الوقت أذن فيه أو لا (إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى) أو كان الخروج لمسجد حيه ولم يصلوا فيه، أو لأستاذه لدرسه، أو لسماع الوعظ. وفی رد المحتار تحته: (قوله أو كان الخروج لمسجد حيه إلخ) أي وإن لم يكن إماما ولا مؤذنا كما في النهاية. قال في البحر: ولا يخفى ما فيه إذ خروجه مكروه تحريما والصلاة في مسجد حيه مندوبة، فلا يرتكب المكروه لأجل المندوب ولا دليل يدل عليه. اه. قلت: لكن تتمة عبارة النهاية هكذا لأن الواجب عليه أن يصلي في مسجد حيه، ولو صلى في هذا المسجد فلا بأس أيضا لأنه صار من أهله. والأفضل أن لا يخرج لأنه يتهم اه ومثله في المعراج فتأمل.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی