سوال:
مفتی صاحب! ایک آدمی نے 2014 میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، عدت گزرنے کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی تھی، اسے کسی نے بتایا کہ جب تک دوسری جگہ نکاح نہ کرو اور وہ تمہیں طلاق نہ دے، اس وقت تک پہلے خاوند کے پاس نہیں جا سکتی، اس عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا، رخصتی بھی ہوگئی ہے، لیکن دوسرے خاوند نے صحبت نہیں کی، صرف بوس و کنار کیا اور اگلے دن طلاق دے دی، پھر عدت گزرنے کے بعد عورت نے پہلے خاوند سے نکاح کر لیا، اس عرصے میں اولاد بھی ہوئی ہے۔ اب جا کر عورت کو پتا چلا کہ دوسرے نکاح میں صحبت کرنا بھی لازمی تھا، وہ پریشان ہے کہ اس کا پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح جائز تھا یا نہیں اور اس سے پیدا شدہ اولاد کا کیا حکم ہے؟ کیا مذکورہ صورت میں وہ میاں بیوی ہیں یا نہیں؟
جواب: 1) واضح رہے کہ تین طلاقوں کے بعد میاں بیوی کے درمیان حرمت مغلظہ ثابت ہو جاتی ہے، یہ حرمت تب ختم ہوتی ہے جب طلاق کی عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کر کے اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کیے جائیں، ازدواجی تعلقات سے مراد یہاں ہم بستری کرنا ہے، اس کے بعد اگر وہ طلاق دے دے، تب وہ عورت عدت گزار کر پہلے شوہر کے نکاح میں آسکتی ہے۔
پوچھی گئی صورت میں دوسرے نکاح میں چونکہ ہم بستری نہیں ہوئی ہے، اس لیے وہ خاتون بدستور پہلے شوہر کے لیے حرام تھی، اس کے باوجود ان کا آپس میں دوبارہ نکاح بھی شرعاً ناجائز تھا اور پھر آپس میں ازدواجی تعلقات قائم کرنا یہ سب حرام کاری کے زمرے میں آیا ہے۔
اب دونوں میاں بیوی پر لازم ہے کہ فوراً اس حرام کاری سے علیحدگی اختیار کریں، سچے دل سے خوب گڑگڑا کر اللہ سے اپنے اس جرم پر توبہ اور استغفار کریں۔
چونکہ موجودہ صورت حال میں بھی ان دونوں کا نکاح ممکن نہیں ہے، اگر اب بھی دونوں دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ میاں بیوی کی طرح رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خاتون کسی اور مرد سے نکاح کرے اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے (ہم بستری کرے)، پھر وہ اسے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے، اس کے بعد وہ عورت عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرے تو ایسا کرنا تب نکاح حلال ہو گا۔
2) موجودہ صورت میں اگرچہ پہلے شوہر سے نکاح حلال نہیں تھا، لیکن چونکہ نادانی میں انہوں نے نکاح کر کے ازدواجی تعلقات قائم کیے، جس کے نتیجے میں اولاد ہوئی ہے تو شبہ عقد کی وجہ سے پیدا ہونے والی اولاد کا نسب پہلے شوہر سے ثابت ہوگا، لیکن اس کے باوجود ان دونوں کو فوراً علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیة: 230)
فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنۡ ظَنَّاۤ اَنۡ یُّقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ o
صحیح البخاری: (باب من أجاز طلاق الثلاث، رقم الحدیث: 5260، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته".
صحيح البخاري: (كِتَاب الطَّلَاقِ، بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَثِ، رقم الحديث: 5261، ط: دار طوق النجاة)
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ، فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ: لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ".
الفتاوی الھندیة: (473/1، ط: دار الفكر)
"وَإِنْ كَانَ الطَّلَاقُ ثَلَاثًا فِي الْحُرَّةِ وَثِنْتَيْنِ فِي الْأَمَةِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِكَاحًا صَحِيحًا وَيَدْخُلَ بِهَا ثُمَّ يُطَلِّقَهَا أَوْ يَمُوتَ عَنْهَا، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ".
الهداية: (257/2)
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها".
الفتاوى الهندية: (540/1)
"ولو طلقها ثلاثا، ثم تزوجها قبل أن تنكح زوجا غيره فجاءت منه بولد ولا يعلمان بفساد النكاح فالنسب ثابت، وإن كانا يعلمان بفساد النكاح يثبت النسب أيضا عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى كذا في التتارخانية ناقلا عن تجنيس الناصري".
الفتاوى الهندية: (528/1)
"وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان. وسواء كانت المرأة حرة أو مملوكة قنة أو مدبرة أو مكاتبة أو أم ولد أو مستسعاة مسلمة أو كتابية كذا في البدائع وسواء كانت عن طلاق أو وفاة أو متاركة أو وطء بشبهة كذا في النهر الفائق. وسواء كان الحمل ثابت النسب أم لا ويتصور ذلك فيمن تزوج حاملا بالزنا كذا في السراج الوهاج".
و کذا في نجم الفتاوی: (686/6، ط: دار العلوم یاسین القرآن)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی