سوال:
مفتی صاحب! میرے کئی سال پرانی دوست ہے، جو کافی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، ان کے والد صاحب کا اپنا کاروبار ہے اور چھ سات سال پہلے انہوں نے اپنے گھر ایک کنال پر بنایا تھا، کھاتے پیتے گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ میری دوست 23 سال کی ہے اور وہ گریجویشن کی تعلیم مکمل کر چکی ہے، وہاں ان کو ایک لڑکا با اخلاق ہونے کی وجہ سے پسند آیا۔ جب میری دوست نے اس لڑکے کا ذکر اپنے گھر والوں سے کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تمہارا ہم پلہ نہیں ہے، حالانکہ لڑکا سافٹ ویئر ہاؤس میں کام کرتا ہے اور تقریبا ڈیڑھ لاکھ تک کما رہا ہے اور اس کے والدین الگ سے کما رہے ہیں، اس اس کا تعلق قصور سے ہے اور حال ہی میں لاہور میں پانچ مرلے کے گھر میں کرائے پر آیا ہے، لیکن گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ ہم پلہ نہیں ہیں، وہ کاروباری بھی نہیں ہے اور ان کی زندگی ہم سے میچ نہیں ہوتی اور خاندان والے کیا کہیں گے کہ لڑکی کدھر دے دی؟ خود کیسی زندگی گزار رہے ہیں اور لڑکی کیسی گزار رہی ہے اور اس لڑکی کی بڑی بہن کو جو طلاق ہوئی ہے، اس کا سسرال بھی اسی خاندان کا تھا، اگر ذات الگ ہے۔ لڑکی کا پوچھنا یہ ہے کہ کیا واقعی وہ لڑکا ہم پلہ نہیں ہے، جبکہ شرافت، حسب نسب اور مالداری میں وہ اچھا ہے۔ کیا ان کے والدین کی بات درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نکاح میں جن چیزوں میں کفاءت یعنی برابری اور ہم پلّہ ہونے کا اعتبار کیا گیا ہے، ان میں ایک خاندانی پیشہ بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکے کا خاندانی پیشہ ایسا ہو کہ عرف میں وہ لڑکی والوں کے پیشے کے مقابلے میں کمتر اور حقیر نہ سمجھا جاتا ہو، اس کا تعلق لڑکے کے کاروباری یا نوکری پیشہ ہونے سے نہیں ہے، جبکہ مال داری میں کفاءت کا مطلب یہ ہے کہ لڑکے کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ لڑکی کا مہرِ معجل دے سکتا ہو اور اس کا نان نفقہ بھی برداشت کرسکتا ہو۔
پوچھی گئی صورت میں اگر والدین نے اس رشتے سے اس لیے منع کیا ہو کہ لڑکے کے خاندان کا پیشہ لڑکی والوں کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور ایسی وجہ ہے جس کی بنا پر والدین نے اپنی بیٹی کا رشتہ اس خاندان میں دینا پسند نہیں کیا تو چونکہ والدین کی رضامندی اور سرپرستی کے بغیر نکاح کرنا اکثر بے برکتی، بے اتفاقی اور آپس کی ناراضگیوں اور مستقبل میں پریشانیوں کا سبب بنتا ہے، اس لیے لڑکی کو چاہیے کہ والدین کی پسند کو اپنی پسند پر ترجیح دے۔ لیکن اگر خاندانی پیشے کے اعتبار سے یہ لڑکا لڑکی کا کفو ہے، اور والدین کے پاس اس رشتہ کو رد کرنے کی کوئی اور قابل ذکر وجہ بھی نہیں ہے تو پھر انہیں لڑکی کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے اس رشتے کو قبول کرلینا چاہیے، اس لیے کہ بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی اور اجازت کے بغیر منعقد نہیں ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 2083، 425/3، ط: دار الرسالة العالمية)
عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة نكحت بغير إذن مواليها فنكاحها باطل، ثلاث مرات، فإن دخل بها فالمهر لها بما أصاب منها، فإن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي له۔
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1107، ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ .
المبسوط للسرخسي: (24/5، ط: دار المعرفة، بيروت)
الْكَفَاءَةُ فِي خَمْسَةِ أَشْيَاءَ (أَحَدُهَا) النَّسَبُ...(وَالثَّانِي): الْكَفَاءَةُ فِي الْحُرِّيَّةِ...(وَالثَّالِثُ): الْكَفَاءَةُ مِنْ حَيْثُ الْمَالُ.....(وَالرَّابِعُ): الْكَفَاءَةُ فِي الْحِرَفِ، وَالْمَرْوِيُّ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّ ذَلِكَ غَيْرُ مُعْتَبَرٍ أَصْلًا، وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ مُعْتَبَرٌ حَتَّى إنَّ الدَّبَّاغَ وَالْحَجَّامَ وَالْحَائِكَ وَالْكَنَّاسَ لَا يَكُونُ كُفُؤًا لِبِنْتِ الْبَزَّازِ وَالْعَطَّارِ، وَكَأَنَّهُ اعْتَبَرَ الْعَادَةَ فِي ذَلِكَ، وَوَرَدَ حَدِيثٌ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: «النَّاسُ أَكْفَاءٌ إلَّا الْحَائِكَ وَالْحَجَّامَ» وَلَكِنَّ أَبُو حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - قَالَ: الْحَدِيثُ شَاذٌّ لَا يُؤْخَذُ بِهِ فِيمَا تَعُمُّ بِهِ الْبَلْوَى، وَالْحِرْفَةُ لَيْسَتْ بِشَيْءٍ لَازِمٍ فَالْمَرْءُ تَارَةً يَحْتَرِفُ بِحِرْفَةٍ نَفِيسَةٍ، وَتَارَةً بِحِرْفَةٍ خَسِيسَةٍ بِخِلَافِ صِفَةِ النَّسَبِ؛ لِأَنَّهُ لَازِمٌ لَهُ، وَذُلُّ الْفَقْرِ كَذَلِكَ فَإِنَّهُ لَا يُفَارِقُهُ۔(وَالْخَامِسُ:) الْكَفَاءَةُ فِي الْحَسَبِ۔
رد المحتار :(92/3، ط: سعید)
قوله (واما لو كان دباغا فصار تاجرا فان بقي عارا لم يكن كفؤا و الا لا) هذا فرعه صاحب البحر على ما تقدم بانه ينبغي ان يكون كفؤا ثم استدرك عليه بمخالفته لقولهم ان الصنعه وان امكن تركها يبقى عارها ووفق في النهر بقوله ولو قيل انه ان بقي عارها لم يكن كفؤا وان تناسى امرها لتقادم زمانها كان كفؤا لكان حسنا.
و فیه ایضاً: (58/3، ط: سعید)
(قوله وهو السنة) بأن يقول لها قبل النكاح: فلان يخطبك أو يذكرك فسكتت، وإن زوجها بغير استئمار فقد أخطأ السنة وتوقف على رضاها، بحر عن المحيط.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی