سوال:
مفتی صاحب! "جزی اللہ عنا محمدا ﷺ ما ھو اھله" درود شریف کی فضیلت کے بارے میں پڑھا ہے کہ ستر فرشتے ایک ہزار دن تک اس کا ثواب لکھتے لکھتے تھک جاتے ہیں۔ (الذھبی، میزان الاعتدال 291/4) براہ کرم اس کی تصدیق فرمادیں۔
جواب: سوال میں مذکور درود شریف کے الفاظ: "جزى الله عنا محمداً صلى الله عليه وسلم ما هو أهله" (اللہ ہماری جانب سے محمد ﷺ کو ان کی شایانِ شان بدلہ عطا فرمائے) کى فضیلت حدیث سے ثابت ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث تین سندوں سے مروى ہے، ان سندوں میں ضعیف راوى ہیں، لیکن وہ شدید ضعیف نہیں ہیں، چنانچہ اس حدیث کى اسانید کے مجموعے سے اس کے ضعف میں تخفیف ہو جائے گى اور ایسى روایت جو کہ شدید ضعیف نہ ہو، فضائل کے باب میں محدثین کے نزدیک معتبر ہوتى ہے۔
ذیل میں اس حدیث کى تخریج اور اس پر محدثین کا کلام نقل کیا جاتا ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث تین مختلف راویوں کى سند سے "معاویۃ بن صالح" کے طریق سے مروى ہے، ذیل میں ان تینوں اسانید کى تخریج اور ان کى اسنادى حیثیت بیان کى جاتى ہے:
(الف) تخریج الحدیث:
اس حدیث کو مندرجہ ذیل کتبِ ِاحادیث میں "ہانی بن متوکل" کى سند سے روایت کیا گیا ہے:
1) امام طبرانی رحمہ اللہ (م 360ھ) نے اپنى کتاب "المعجم الأوسط" (1/ 82، رقم الحديث (235)، ط: دار الحرمين-القاهرة)میں نقل کیا ہے۔
2) امام طبرانی رحمہ اللہ (م 360ھ) نے اپنى کتاب "المعجم الكبير" (11/ 206، رقم الحديث: (11509)، ط: مكتبة ابن تيمية-القاهرة) میں نقل کیا ہے۔
3) امام طبرانی رحمہ اللہ (م 360ھ) نے اپنى کتاب "مسند الشاميين " (3/ 196، رقم الحديث (2070)، ط: مؤسسة الرسالة) میں نقل کیا ہے۔
4) امام ابو نعيم رحمہ اللہ (م 430 ھ) نے اپنى کتاب "حلية الأولياء" (3/ 206، ط: مطبعة السعادة) میں نقل کیا ہے۔
5) امام ابو نعيم رحمہ اللہ (م 430 ھ) نے اپنى کتاب "تاريخ أصبهان" (2/ 276، ط: دار الكتب العلمية) میں نقل کیا ہے۔
6) خطيب بغدادى رحمہ اللہ (م 463ھ) نے اپنى کتاب "تاريخ بغداد" (ترجمة خازم بن يحيى بن إسحاق، 9/ 295، ط: دار الغرب الإسلامي) میں نقل کیا ہے۔
7) ابو الحسن الخلعی رحمہ اللہ (م 492 ھ) نے اپنى کتاب "الفوائد المنتقاة الحسان (الخلعيات -برواية السعدي)"(2/ 153 ، رقم الحديث (811)، ط: الكتاب مخطوط) میں نقل کیا ہے۔
8) ابو طاهر السِّلَفي (م 576ھ) نے اپنى کتاب " المشيخة البغدادية" (17/ 4 ، رقم الحديث (17)، الكتاب مخطوط) میں نقل کیا ہے۔
مذکورہ بالا سند کے متعلق محدثین کا کلام:
1) اس حدیث کو حافظ منذری رحمہ اللہ (م 656ھ) نے اپنى کتاب "الترغیب والترھیب" (2/ 329، طبع: دار الکتب العلمیۃ) میں امام طبرانی رحمہ اللہ کى "المعجم الکبیر " اور "المعجم الأوسط" کے حوالے سے (بصیغہ تمریض) نقل کر کے اس حدیث کے ضعیف ہونے کى طرف اشارہ کیا ہے"۔
2) حافظ نور الدین الھیثمی رحمہ اللہ (م 807ھ) نے اپنى کتاب "مجمع الزوائد" (10/163، رقم الحدیث (17305) میں نقل کر کے فرمایا ہے: "اس حدیث کو طبرانی نے "المعجم الکبیر والمعجم الأوسط" میں روایت کیا ہے اور اس میں راوى "ہانی بن المتوکل" ہے اور وہ ضعیف ہے"۔
3) حافظ سخاوی رحمہ اللہ (م 902ھ) نے اپنى مشہور ومقبول کتاب "القول البدیع" ص 52، طبع: دار الریان، میں اس حدیث کو نقل کر کے فرمایا ہے: "اس حدیث کو روایت کیا ہے ابو نعیم نے "حلیۃ" میں، ابن شاہین نے "الترغیب" میں ، ابو الشیخ اور خلعی نے اپنى کتاب "فوائد" میں، طبرانی نے "المعجم الکبیر والمعجم الأسط" میں، ابن بشکوال نے اور رشید العطار نے (رحمہم اللہ) نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کى سند میں "ہانی بن المتوکل" ہے، وہ ضعیف ہے"۔
لہذا یہ سند "ہانی بن متوکل" کى وجہ سے ضعیف ہے۔
(ب) تخریج الحدیث:
اس حدیث کو مندرجہ ذیل کتبِ ِاحادیث میں "رشدین بن سعد" کى سند سے روایت کیا گیا ہے:
1) قاضی ابو بکر وکیع رحمہ اللہ (م306ھ) نے اپنى کتاب "أخبار القضاة " (3/ 273، ط: المكتبة التجارية الكبرى) میں نقل کیا ہے۔
2) حافظ اسماعيل الأصبهانی رحمہ اللہ (م 535ھ) نے اپنى کتاب "الترغيب والترهيب" (باب الترغيب في الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم/ فصل، 2/ 331، رقم الحديث (1700)، ط: دار الحديث –القاهرة) میں نقل کیا ہے۔
مذکورہ بالا حدیث کے راوی"رشدین بن سعد" پر محدثین کا کلام:
1) اس حدیث میں راوی "رشدین بن سعد" ہے، اس کے متعلق حافظ ذہبى رحمہ اللہ (م 748ھ) نے اپنى کتاب "الكاشف" (1/ 396 ،(1575)، طبع: دار القبلة) میں فرمایا ہے: رشدین بن سعد ابو الحجاج المھری نے یونس بن یزید اور زھرۃ بن معبد سے روایت کرتے ہیں اور ان سے احمد بن السرح اور عیسى بن مثرود روایت کرتے ہیں، امام ابوزرعہ نے فرمایا ہے: وہ ضعیف ہیں، ان کى وفات سن 188 میں ہوئى ہے، وہ نیک اور عبادت گزار تھے، محدث تھے، البتہ ان کا حافظ ٹھیک نہیں تھا۔
2) حافظ ذہبى رحمہ اللہ (م 748ھ) نے اپنى کتاب "تذهيب تهذيب الكمال" (3/ 244، (1938)، طبع: الفاروق الحديثةللطباعة) میں "رشدین بن سعد" کے تذکرے میں فرمایا ہے: "امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م 241ھ) نے فرمایا: "رشدين" جن سے روایت نقل کرتے ہیں، ان کے متعلق چھان بین نہیں کرتے ہیں لیکن وہ خود نیک آدمى ہیں اور ان سے مروى وہ روایات جو زہد وتقوى وغیرہ کے متعلق ہیں ان کو نقل کرنے میں کوئى حرج نہیں ہے، نیز یہ بھى فرمایا: میرا خیال ہے کہ وہ صالح الحدیث ہیں (ان کى روایت قابل قبول ہیں) امام یحى بن معین رحمہ اللہ نے ان کے متعلق فرمایا ہے: وہ کوئى قابل اعتبار شخصیت نہیں ہیں۔ ابو زرعہ نے فرمایا ہے: وہ ضعیف ہیں اور جوزجانی نے فرمایا ہے: رشدین بن سعد کے پاس بہت سى عجیب وغریب روایات ہوتى ہیں۔ اور ابن یونس نے ان کے متعلق فرمایا ہے: ان کى ولادت سن 110 ہجرى میں ہوئى ہے اور ان کى وفات سن 188 ہجرى میں ہوئى ہے، وہ نیک صالح شخص تھے، ان کے نیک سیرت ہونے میں کوئى شبہ نہیں ہے، البتہ ان کو نیک لوگوں کى سى بھول بھلیاں ہو گئیں تھیں، جس وجہ سے انہیں حدیث میں خلط ہوا ہے"۔
3) حافظ سخاوی رحمہ اللہ (م 902ھ) نے اپنى کتاب"القول البديع" ( ص52، طبع: دار الريان) میں رشدین بن سعد کى روایت کے متعلق فرمایاہے: "اس روایت کو ابو القاسم التیمی نے اپنى "الترغیب" میں، ان کى سند سے ابن عساکر نے اور انہى کے طریق سے ابوالیمن نے اس روایت کو ہانی بن المتوکل کى سند کے علاوہ سے نقل کیا ہے، لیکن اس سند میں رشدین بن سعد ہے اور وہ بھى ضعیف ہے"۔
لہذا یہ سند بھى "رشدین بن سعد" کى وجہ سےضعیف ہے۔
(ج) تخریج الحدیث:
اس حدیث کى ایک تیسرى سند بھى ہے، جو کہ حافظ سخاوی رحمہ اللہ (م 902ھ) نے اپنى کتاب "القول البديع" ( ص52، طبع: دار الريان) میں ذکر فرمائى ہے، وہ سند "احمد بن حماد" کی ہے، ان کے متعلق فرمایا ہے: یہ "احمد بن حماد" معاویۃ بن صالح سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں، لیکن ان کے احوال کا علم نہیں ہوسکا ہے"۔
لہذا اس حدیث میں راوی مجہول ہے، اس وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے۔
نیز حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے زیر بحث حدیث کى مذکورہ بالا تین اسانید نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہ تینوں اسانید "معاویہ بن صالح" کے طریق سے یہ روایت نقل کرتى ہیں، چنانچہ یہ حدیث "معاویۃ بن صالح" کے طریق سے درجہ شہرت کو پہنچی ہوئی ہے۔
خلاصہ بحث:
درود شریف کے الفاظ: "جزى الله عنا محمداً صلى الله عليه وسلم ما هو أهله" اگرچہ ضعیف حدیث سے ثابت ہیں، لیکن یہ ضعیف حدیث متعدد طرق سے مروى ہے، نیز اس حدیث کے بعض شواھد بھی موجود ہیں، اگرچہ وہ بھی ضعیف ہیں، اس لیے اس کے ضعف میں تخفیف ہوگئى ہے اور ایسى ضعیف حدیث فضائل میں محدثین کے نزدیک معتبر ہوتى ہے، لہذا اس درود شریف کى فضیلت کے حصول کے لیے اس کا پڑھنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ سعادت کے حصول کا ذریعہ ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے امت مسلمہ پر جو احسانات وانعامات ہیں، ان کے شکریہ ہمارے بس میں تو ہے ہى نہیں، سوائے اس کے کہ ہم اللہ تعالى سے درخواست کریں کہ وہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو ہمارى طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المعجم الأوسط للطبراني: (رقم الحديث: 235، 82/1، ط: دار الحرمين- القاهرة)
حدثنا أحمد بن رشدين قال: نا هانئ بن المتوكل قال: نا معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال: جزى الله عنا محمدا بما هو أهله، أتعب سبعين كاتبا ألف صباح".
وقال: لم يرو هذا الحديث عن عكرمة إلا جعفر بن محمد، ولا عن جعفر إلا معاوية بن صالح، تفرد به: هانئ بن المتوكل.
المعجم الكبير للطبراني: (رقم الحديث: 11509، 206/11، ط: مكتبة ابن تيمية- القاهرة)
حدثنا أحمد بن رشدين، ثنا هانئ بن المتوكل الإسكندراني، ثنا معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال :جزى الله محمدا عنا ما هو أهله أتعب سبعين كاتبا ألف صباح".
والحديث ذكره المنذري في "الترغيب والترهيب ": (كتاب الذكر والدعاء الترغيب في الإكثار من ذكر الله سرا وجهرا، 2/ 329، ط: دار الكتب العلمية) معزوا للطبراني في "الكبير" و "الأوسط" بصيغة التمريض.
والحديث ذكره الهيثمي في "مجمع الزوائد " (كتاب الأدعية/ باب كيفية الصلاة عليه وما يضم إليها، 10/ 163، رقم الحديث (17305)
وقال: رواه الطبراني في "الكبير والأوسط"، وفيه هانئ بن المتوكل، وهو ضعيف.
مسند الشاميين للطبراني: (رقم الحديث: 2070، 196/3، ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا أحمد بن رشدين المصري، ثنا هانئ بن المتوكل الإسكندراني، ثنا معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال :جزى الله عنا محمدا ما هو أهله أتعب سبعين ملكا ألف صباح".
حلية الأولياء: (206/3، ط: مطبعة السعادة)
حدثنا سليمان بن أحمد حدثنا أحمد بن رشدين ثنا هاني بن المتوكل ثنا معاوية بن أبي صالح عن جعفر بن محمد عن عكرمة عن ابن عباس. قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال جزی الله عنا محمدا صلى الله عليه وسلم بما هو أهله، أتعب سبعين كاتبا ألف صباح".
وقال أبو نعيم: هذا حديث غريب من حديث عكرمة وجعفر ومعاوية تفرد به هاني بن المتوكل الاسكندرانى.
تاريخ أصبهان لأبي نعيم: (276/2، ط: دار الكتب العلمية)
حدثنا أبو عبد الله محمد بن أحمد بن يزيد ثنا يوسف بن فورك المستملي، ثنا محمد بن عبد الله بن مخلد، ثنا هانئ بن المتوكل، ثنا معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من قال: جزى الله محمدا عنا بما هو أهله، أكتب سبعين كاتبا ألف صباح ".
تاريخ بغداد للخطيب أورده في ترجمة خازم بن يحيى بن إسحاق، 295/2، ط: دار الغرب الإسلامي
أخبرنا إبراهيم بن مخلد بن جعفر، قال: حدثنا محمد بن أحمد بن إبراهيم الحكيمي. وأخبرنا محمد بن عبيد الله الحنائي، قال: حدثنا إسماعيل بن محمد الصفار؛ قالا: حدثنا خازم بن يحيى الحلواني، قال: حدثنا هانئ بن المتوكل - زاد الصفار: الإسكندراني، ثم اتفقا - قال: حدثنا معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من قال: "جزى الله محمدا عنا ما هو أهله، أتعب سبعين كاتبا ألف صباح".
الفوائد المنتقاة الحسان للخلعي (الخلعيات) رواية السعدي: (رقم الحديث: 811، 153/2، ط: الكتاب مخطوط)
أخبرنا أبو محمد عبد الرحمان بن عمر بن محمد بن سعيد الشاهد، إملاء قال: أخبرنا أبو يوسف يعقوب بن المبارك بن أحمد بن يعقوب قال: حدثنا عمرو بن عبدوس بن كامل الهمداني، قال: حدثنا هاني بن متوكل قال: حدثنا معاوية بن صالح عن جعفر بن محمد عن عكرمة عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من قال جزى الله عنا محمدا ما هو أهله أتعب سبعين كاتبا ألف صباح".
المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي: (رقم الحديث: 17، 17/4، الكتاب مخطوط)
حدثنا حامد، نا عبيد الله بن واصل، نا يحيى بن محمد الشاشي، نا هانئ بن المتوكل، حدثني معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من قال: جزى الله محمداً صلى الله عليه وسلم عنا ما هو أهله، أتعب سبعين كاتبا ألف صباح ".
أخبار القضاة للوكيع: (273/3، ط: المكتبة التجارية الكبرى)
حدثني الأحوص محمد بن نصر الأبرص، قال: حدثنا جعفر بن عيسى الحسني القاضي قال: حدثنا رشيد بن سعد عن معاوية بن صالح عن جعفر بن محمد عن عكرمة عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من قال: جزى الله عنا محمدا ما هو أهله أتعب سبعين كاتبا ألف صباح".
الترغيب والترهيب لإسماعيل الأصبهاني: (باب الترغيب في الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، فصل، رقم الحديث: 1700، 331/2، ط: دار الحديث –القاهرة)
أخبرنا أحمد بن علي بن خلف، أنبأ أبو يعلى المهلبي، أنبأ أبو عبد الله الصفار الأصبهاني، ثنا أبو سعيد: الحسن بن علي بن بحر، ثنا جعفر بن عيسى القاضي –قاضي الري- ثنا رشيد بن سعد، ثنا معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس –رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من قال: جزى الله محمداً عنا ما هو أهله، أتعب سبعين كاتباً ألف صباح".
قال الذهبي في "الكاشف" 1/ 396 (1575)، ط: دار القبلة: رشدين بن سعد أبو الحجاج المهري عن يونس بن يزيد وزهرة بن معبد وعنه بن السرح وعيسى بن مثرود قال أبو زرعة ضعيف توفي 188 كان صالحا عابدا محدثا سئ الحفظ ت ق.
تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال: (244/3، (1938)، ط: الفاروق الحديثة للطباعة)
"رِشْدِين بن سعد بن مفلح أبو الحجاج المهري، المصري.عن: يونس الأُبُلي، وزَيَّان بن فائد، وأبي هانئ حميد بن هانئ، وأبي عقيل زهرة بن معبَد، وعمرو بن الحارث، وطائفة. وعنه: ابن المبارك - مع تقدمه - ومروان الطاطري، وسعيد بن أبي مريم، وقتيبة، وأبو كريب، وأحمد بن السَّرْح، وعيسى بن مَثْرود، وخلق.قال أحمد بن حنبل: رشدين لا يبالي عمن روي، لكنه رجل صالح، وليس به بأس في الرقاق. وقال أيضًا: أرجو أنه صالح الحديث. وقال ابن معين: ليس بشيء. وقال أبو زرعة: ضعيف. وقال الجوزجاني: عنده مناكير كثيرة. وقال ابن يونس: ولد سنة عشر ومائة، ومات سنة ثمان وثمانين ومائة، وكان رجلًا صالحًا لا يشك في صلاحه وفضله،فأدركتة غفلة الصالحين فخلط في الحديث".
القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع: (الباب الأول في الأمر بالصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، التنبيه، ص: 52، ط: دار الريان)
"وعن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من قال جزى الله عنا محمداً صلى الله عليه وسلم بما هو أهله أتعب سبعين ملكاً ألف صباح رواه أبو نعيم في الحلية وابن شاهين في الترغيب له وأبو الشيخ والخلعي في فوائده والطبراني في المعجم الكبير والأوسط وابن بشكوال والرشيد العطار وفي سنده هاني بن المتوكل وهو ضعيف وأخرجه أبو القاسم التيمي في ترغيبه وعنه أبو القاسم بن عساكر ومن طريقه أبو اليمن من غير طريق هاني لكن فيه رشدين بن سعد وهو ضعيف أيضاً وتابعها أحمد بن حماد وغيره كلهم عن معاوية بن صالح والحديث مشهور به كما قال أبو اليمن قال وكان على قضاء الأندلس".
واللہ تعالى أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچى