سوال:
مفتی صاحب! کیا اس حدیث "أن آدم لما هبط طاف بًالبيت سبعا ، وصلى خلف المقام ركعتين ، ثم قال : اللهم إنك تعلم سري وعلانيتي فاقبل معذرتي ، وتعلم حاجتي فأعطني سؤلي ، وتعلم ما عندي فاغفر لي ذنوبي ، اللهم إني أسألك إيمانا يباشر قلبي ، ويقينا صادقا حتى أعلم أنه لا يصيبني إلا ما كتبت لي ، والرضا بما قضيت علي ، فأوحى الله إليه : قد دعوتني دعاء استجبت لك به ، ولن يدعوني به أحد من ذريتك من بعدك إلا استجبت له ، وغفرت ذنوبه ، وفرجت همومه ، وتجرت له من وراء كل تاجر ، وأتته الدنيا وهي راغمة ، وإن كان لا يريدها " (مجمع الزوائد) کو ضعیف ہونے کے علم کے باوجود آگے بیان کرنا درست ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت کی سند میں اگرچہ کلام ہے، لیکن اس روایت کے دیگر طرق موجود ہیں، جن کی وجہ سے اس روایت کو ایک درجہ تقویت مل جاتی ہے اور اس کا ضعف کم ہوجاتا ہے۔ نیز روایت کا تعلق چونکہ فضائلِ اعمال سے ہے اور فضائل کے باب میں اس قسم کی روایت قابلِ قبول ہوتی ہے، لہذا اس دعا کی فضیلت میں زیرِ بحث حدیث کو بیان کیا جا سکتا ہے۔
ذیل میں اس روایت کا ترجمہ، تخریج اور اسنادی حیثیت ذکر جاتی ہے:
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا تو وہ کھڑے ہوئے اور کعبہ شریف پر آئے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے (اس مقام پر) ان کو یہ دعا الہام فرمائی:’’ اَللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ سَرِيرَتِي، وَعَلَانِيَتِي فَاقْبَلْ مَعْذِرَتِي، وَتَعْلَمُ حَاجَتِي فَأَعْطِنِي سُؤْلِي، وَتَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي ذَنْبِي. اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيمَانًا يُبَاشِرُ قَلْبِي، وَيَقِينًا صَادِقًا حَتَّى أَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُنِي إِلَّا مَا كَتَبْتَ لِي، وَرِضًا بِمَا قَسَمْتَ لِيْ‘‘ ’’اے اللہ! تو میرے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے سو میری معذرت قبول فرما اور تو میری حاجت کو جانتا ہے سو مجھے عطا فرما جو میں نے سوال کیا اور تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے سو میرے گناہ بخش دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے ایسے ایمان کا طالب ہوں جو میرے قلب میں جاگزیں ہو اور یقین صادق کا طلب گار ہوں حتی کہ میں جان لوں کہ جو کچھ مجھے پہنچتا ہے وہ وہی ہے جو تو نے میری تقدیر میں لکھ دیا اور میں اس پر ہر طرح سے راضی ہوں جو تو نے میرے لئے تقسیم فرما دیا‘‘۔
پھراللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی۔ اے آدم! میں نے تیری توبہ قبول کرلی اور تیرے گناہ کو معاف کردیا اور جو کوئی یہ دعا کرے گا تو اس کے گناہ ضرور معاف کروں گا اور میں اس کی ضرورت اور معاملہ میں کفایت کروں گا اور اس سے شیطان کو روک دوں گا اور اس کے لیے ہر تاجر سے آگے تجارت کروں گا اور دنیا کو اس کی طرف متوجہ کروں گا اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی، اگرچہ وہ انسان دنیا کا ارادہ نہیں کرے گا۔ (المعجم الاوسط،حدیث نمبر:5974)
تخریج الحدیث:
۱۔ اس روایت کو امام طبرانی (م360ھ) نے ’’المعجم الأوسط‘‘ (117/6، رقم الحدیث:5974،ط:دارالحرمین) میں ذکر کیا ہے۔
۲۔ حافظ ذہبی (م748ھ) نے’’سیر اعلام النبلاء‘‘ (153/16،ط:دارالحدیث) میں اور علامہ ابن ناصر الدین الدمشقی (م842ھ) نے’’ توضيح المشتبه‘‘ (60/9،ط: مؤسسة الرسالة) میں امام ابوعلی ابن شاذان (م246ھ) کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔
۳۔ امام ازرقی (م250ھ)نے ’’أخبارمکۃ‘‘ (44/1،ط:دارالاندلس) میں الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
۴۔ امام المفضل بن محمد الجندی(م308ھ) نے ’’فضائل مکہ‘‘(ص:118،رقم الحدیث:51) میں الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
۵۔ امام ابن ابی حاتم (م327ھ)نے’’العلل ‘‘(380/5،رقم الحدیث: 2061،ط:مؤسسۃ الجریسی) میں الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
۶۔ امام دارقطنی (م385ھ) نے’’المؤتَلِف والمختَلِف ‘‘(1941/4،ط:دارالغرب الاسلامی) میں الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ اس روایتب کو ذکرکیا ہے۔
۷۔ امام بیہقی (م458ھ)نے’’الدعوات الکبیر‘‘(352/1،رقم الحدیث:262،ط:غراس للنشر والتوزیع) میں ذکر کیا ہے۔
۸۔ امام دیلمی (م509ھ) نے ’’مسند الفردوس‘‘(424/3،رقم الحدیث:5300،ط:دارالکتب العلمیۃ) میں ذکر کیا ہے۔
۹۔ حافظ ابن عساکر (م571ھ) نے’’تاریخ دمشق‘‘(432/7،ط:دارالفکر) میں دو طریق سے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
امام ابو حاتم(م277ھ) نے’’العلل‘‘ میں اس روایت کے بارے میں فرمایا:’’یہ حدیث منکر ہے‘‘۔ علامہ ہیثمی (م807ھ) ’’مجمع الزوائد ‘‘میں اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں:’’اس روایت کو طبرانی نے المعجم الاوسط میں نقل کیا ہے اور اس میں راوی ’’نضر بن طاهر‘‘ ہیں جو ضعیف ہیں۔
علامہ سیوطی (م911ھ) ’’الدر المنثور‘‘ میں اس روایت کے بارے میں فرمایا: ’’اس روایت طبرانی نے المعجم الاوسط میں اورابن عساکر نےسند ضعیف کے ساتھ نقل کیا ہے۔‘‘ یعنی علامہ سیوطی اس روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) نے ’’نتائج الافکار‘‘ میں اس روایت کے چار طرق ذکر کیے ہیں، جن میں سے تین طرق کے بارے میں ضعف ِ شدید ہونے کی صراحت کی ہے اور چوتھے طریق کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ضعفِ شدید کے حوالے سے کوئی بات ذکر نہیں کی، البتہ اس کو عبد الله بن ابى سليمان سے موقوفاً نقل کیا ہے، اور ان چار طرق كو ذكر كرنے كے بعد اس روایت کے بارے میں فرمایا: حدیث کے مذکورہ چار طرق سے یہ حدیث ایسے درجے کی حدیث بن جائے گی کہ جس پر فضائل اعمال میں عمل کیا جاتا ہے، ان اعمال میں سے دعا بھی ہے۔ یعنی حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے مجموعۂ طرق کی بناء پر اس روایت کو فضائل کے باب میں معتبر مانا ہے، لہذا اس دعا کی فضیلت میں زیر بحث حدیث کو بیان کیا جا سکتا ہے۔
خلاصۂ کلام:
سوال میں ذکرکردہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، لیکن تعدد طرق کی وجہ سے اس کو تقویت مل جاتی ہے ،نیز اس روایت کا تعلق بھی فضائل اعمال سے ہے، لہذا اس روایت کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المعجم الأوسط للطبراني: (رقم الحديث: 5974، 117/6، ط: دار الحرمين)
حدثنا محمد بن علي الأحمر الناقد قال: نا النضر بن طاهر قال: ثنا معاذ بن محمد الخراساني، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لما أهبط الله آدم إلى الأرض قام وجاه الكعبة، فصلى ركعتين، فألهمه الله هذا الدعاء: اللهم إنك تعلم سريرتي، وعلانيتي فاقبل معذرتي، وتعلم حاجتي فأعطني سؤلي، وتعلم ما في نفسي فاغفر لي ذنبي. اللهم إني أسألك إيمانا يباشر قلبي، ويقينا صادقا حتى أعلم أنه لا يصيبني إلا ما كتبت لي، ورضا بما قسمت لي. فأوحى الله إليه: يا آدم، إني قد قبلت توبتك، وغفرت لك ذنبك، ولن يدعوني أحد بهذا الدعاء إلا غفرت له ذنبه، وكفيته المهم من أمره، وزجرت عنه الشيطان، واتجرت له من وراء كل تاجر، وأقبلت إليه الدنيا راغمة، وإن لم يردها»
أخرجه الطبراني في معجمه الأوسط وقال: لم يرو هذا الحديث عن هشام بن عروة إلا معاذ بن محمد، تفرد به النضر بن طاهر "
وأخرجه أبواليد الازرقي في’’أخبارمکۃ‘‘(44/1)(348/1) من طريق عبد الله بن أبي سليمان مولى بني مخزوم موقوفاً عليه. و أخرجه في (349/1)من طریق حفص بن سليمان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن أبيه أیضاً۔
و الجندي في ’’فضائل مکة‘‘(118)(51) و ابن أبي حاتم في ’’العلل ‘‘(380/5)(2061) و الدارقطني في ’’المؤتَلِف والمختَلِف‘‘(1941/4) من طريق’’ عبيد الله بن المنهال عن سليمان بن قسيم ، عن سليمان بن بريدة ، عن أبيه‘‘ والبيحقي في ’’الدعوات الکبیر‘‘(352/1)( 262) من طريق عبيد الله بن المنهال به. والديلمي في ’’الفردوس‘‘(424/3)(5300) وابن عساكر في ’’تاریخ دمشق‘‘(432/7) من طريق النضر بن طاهر:حدثني معاذ بن محمد
الأنصاري عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة ومن طريق أخرى عن النضر بن طاهر أيضاً: نا حفص بن سليمان عن علقمة بن مرثد عن
سليمان بن بريدة عن أبيه … به.
وهذا الحديث أورده ابن أبي حاتم في’’العلل‘‘ (380/5)(2061) وقال: فسمعت أبي يقول: هذا حديث منكر. و الهيثمي في ’’مجمع الزوائد ‘‘(183/10)(17426) وقال: رواه الطبراني في الأوسط، وفيه النضر بن طاهر، وهو ضعيف. و الحافظ ابن حجر العسقلاني في’’ نتائج الافكار‘‘(290/5)
هذا حديث غريب فيه سليمان بن مسلم الخشاب ضعيف جداً لكن تابعه حفص بن سليمان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة.
وأخرج أبو الوليد الأزرقي في كتاب مكة من طريق حفص - وهو ضعيف أيضاً، لكنه إمام في القراءة.وأخرجه الأزرقي أيضاً من طريق عبد الله بن أبي سليمان مولى بني مخزوم موقوفاً عليه.ووقع لنا أيضاً من حديث عائشة.قرأت على فاطمة بنت محمد المقدسية ونحن نسمع بصالحية دمشق، عن أبي العماد، قال: أخبرنا أبو محمد بن بنيان في كتابه، قال: أخبرنا إسحاق بن أحمد الحافظ، قال: أخبرنا الحسن بن أحمد المقرئ، قال: أخبرنا أحمد بن عبد الله الحافظ، قال: أخبرنا سليمان بن أحمد، قال: حدثنا محمد بن علي الأقمر، قال: حدثنا النضر بن طاهر، قال: حدثنا معاذ بن محمد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها، فذكر الحديث مختصراً.والنضر أشد ضعفاً من سليمان بن الخشاب، والخشاب أشد ضعفاً من حفص.وهذه الطرق الأربعة ترقي الحديث إلى مرتبة ما يعمل به في فضائل الأعمال كالدعاء، والله أعلم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی