سوال:
میرا تعلق ایک آرمینیو فیکچرنگ کمپنی سے ہے۔ میری کمپنی ہر سال ورکرز پرافٹ پارٹیسپیشن قیمت میں کچھ رقم ادارے کے ورکرز کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔ کمپنی کے سالانہ پرافٹ کا کچھ حصہ جیسا کہ پانچ فیصد نکال کر ایک اکاؤنٹ پر ٹرانسفر کرتی ہے۔ اس کمپنی کے اکاؤنٹ کو کمپنی کے ٹرسٹی (جن میں ایڈمن فنانس اور سی بی اے کے نمائندے شامل ہوتے ہیں) دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس اکاؤنٹ کے پرافٹ کا کچھ حصہ گورنمنٹ اور کچھ ورکرز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے میری کمپنی نے گورنمنٹ کے پیسے گورنمنٹ کے اکاؤنٹ میں جمع نہیں کروائے، کیونکہ اس رقم پر عدالت میں کیس چل رہا ہے تو اس لیے ہماری کمپنی کے ٹرسٹیز نے اس رقم کو saving اکاؤنٹ جو کہ ایک conbentional bank میں موجود ہے، اس میں جمع کروا دیا ہے، جس کے نتیجے میں اس رقم پر انٹرسٹ جمع ہو گیا ہے۔
گورنمنٹ پر کیس کی وجہ سے وہ رقم ابھی تک میری معلومات کے مطابق شاید بینک میں موجود ہے، پر جمع ہونے والی انٹرسٹ کی رقم کو کمپنی کے ٹرسٹیز نے تمام کمپنی کے ملازمین میں باٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ ہم کمپنی کے ملازمین پر اس رقم کو خرچ کر سکتے ہیں؟ اگر خرچ نہیں کر سکتے تو کیا کسی ضرورت مند مسلمان بھائی کو دے سکتے ہیں یا پھر اگر ہم سمجھتے ہیں تو اپنے سگے ضرورت مند بہن یا بھائی کو دے سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ سودی بینک (conventional bank) میں سیونگ اکاؤنٹ (Saving account) کھلوانا جائز نہیں ہے، کیونکہ سودی بینک سیونگ اکاؤنٹ میں قرض کے طور پر رقم لیتا ہے، اس کے اوپر اضافی رقم کے ساتھ واپس کرتا ہے، شرعی طور پر قرض کے اوپر مشروط یا معروف اضافی رقم کا لین دین سود ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے، لہذا سودی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے، نیز اضافی رقم کو صدقہ کرنے کی نیت سے بھی سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
تاہم پوچھی گئی صورت میں اب تک جو سودی رقم حاصل ہوئی ہو، اسے ثواب کی نیت کے بغیر غرباء اور فقراء میں صدقہ کرنا ضروری ہے، لہذا اگر کمپنی کے ملازمین یا بہن بھائی مستحق زکوة ہوں تو انہیں یہ رقم کسی کام کے عوض کے بغیر بلا نیت ثواب دی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (آل عمران، الایة: 130)
یایھا الذین امنوا لا تاکلوا الربوا اضعافا مضاعفة ... الخ
اعلاء السنن: (566/14، ط: دار الکتب العلمیة)
"عن علي رضي اﷲ عنه مرفوعا کل قرض جر منفعة فہو ربا. وقال الموفق: کل قرض شرط فیه الزیادة فهو حرام بلا خلاف
معارف السنن: (باب ما جاء لا تقبل صلاة بغیر طهور، 34/1، ط: سعید)
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالهدایۃ وغیرها: أن من ملکك بملك خبیث، ولم یمکنه الرد إلی المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء … قال: إن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولا یرجو بہ المثوبة
رد المحتار: (553/9، ط. زکریا دیوبند)
و إلا تصدقوا بها لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبها.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی