عنوان: فاٹا کے علاقے میں ایک بستی میں جمعہ کا مسئلہ (14636-No)

سوال: جناب اگر ایک بستی/علاقہ، جس کی کل آبادی محض چار/پانچ ہزار ہو یا دس ہزار سے کم ہو، وہاں دیگر نمازوں کے لیے تو مساجد موجود ہیں، لیکن جمعہ کی نماز آبادی کم ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھائی جاتی، جس کی وجہ سے وہاں کے رہائشیوں کو جمعہ کی نماز کے لئے ایک سے دو گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے۔ وضاحت کے لئے بتاتا چلوں، کہ یہ علاقہ فاٹا کے علاقوں میں سے ہے، جس کا بہت بڑا رقبہ پہاڑوں اور کچھ جنگلات پر مشتمل ہے، لیکن آبادی کم ہے، یہاں کے لوگوں کے لیے جمعہ پڑھنے کے حوالہ سے کیا حکم ہے؟

جواب: واضح رہے کہ جمعہ کی نماز کے درست ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ شہر یا بڑا گاؤں ہو، اور بڑے گاؤں سے عرفاً ایسی بستی مراد ہے جہاں تقریباً چار ہزار کے لگ بھگ ایسی متصل اور ملی ہوئی آبادی ہو، جس کے درمیان کھیتوں یا بڑے دریا وغیرہ کا فاصلہ نہ ہو، نیز وہاں روز مرہ ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء موجود ہوں، مثلاً: کپڑے، جوتے، پرچون، خوشبو، دودھ، گھی وغیرہ کی دکانیں اور ڈاکٹر، حکیم، معمار و مستری وغیرہ موجود ہوں۔
لہٰذا سوال میں ذکر کردہ فاٹا کے پہاڑی علاقے میں اگر چار ہزار سے زیادہ آبادی ہے اور اتنی آبادی بالکل متصل اور ملی ہوئی ہے، نیز وہاں ضروریاتِ زندگی سے متعلق تمام اشیاء میسر ہیں تو اس علاقے میں جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے۔ تاہم اگر آبادی متصل نہ ہو، بلکہ آبادی کے درمیان کھیتوں یا بڑے دریا کا فاصلہ ہو تو اس کے بعد کی آبادی الگ شمار ہوگی، چاہے اس کو ایک ہی نام سے پکارا جاتا ہو، اسی طرح اگر وہاں روز مرہ ضروریاتِ زندگی سے متعلق تمام اشیاء میسر نہ ہوں تو ایسی صورت میں اس علاقے کے لوگوں پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے جمعہ کی ادائیگی درست نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے علاقے میں ظہر کی نماز ہی ادا کیا کریں۔
اگر مقامی مستند مفتیانِ کرام کو متعلقہ علاقہ دکھا کر ان کی رائے لے لی جائے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 902، 6/2، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا ‌أحمد قال: حدثنا ‌عبد الله بن وهب قال: أخبرني ‌عمرو بن الحارث، عن ‌عبيد الله بن أبي جعفر: أن ‌محمد بن جعفر بن الزبير حدثه عن ‌عروة بن الزبير، عن ‌عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: كان الناس ‌ينتابون يوم الجمعة من منازلهم والعوالي، فيأتون في الغبار يصيبهم الغبار والعرق، فيخرج منهم العرق، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم إنسان منهم وهو عندي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لو أنكم تطهرتم ليومكم هذا.

فتح الباري لابن حجر: (386/2، ط: دار الفکر)
وقال القرطبي فيه رد على الكوفيين حيث لم يوجبوا الجمعة على من كان خارج المصر كذا قال وفيه نظر لأنه لو كان واجبا على أهل ‌العوالي ما تناوبوا ولكانوا يحضرون جميعا والله أعلم.

رد المحتار: (137/2، ط: دار الفکر)
صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح. اه

امداد الاحکام: (756/1، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 366 Feb 02, 2024
fata ke elaqe mein aik basti mein jumma ka masla

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.