عنوان: "نماز میں لمبا قیام کرنا موت کی تکالیف کو کم کردیتا ہے" حدیث کی تحقیق(14647-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! برائے مہربانی اس حدیث کا حوالہ کی تصدیق فرما دیں کہ "نماز میں لمبا قیام کرنا موت کی تکالیف کو ہٹا دیتا ہے۔ (مسند الفردوس)

جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت سند کے اعتبار سے "شدید ضعیف" ہے، لہذا احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ اس حدیث کی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
ذیل میں اس روایت کا ترجمہ، تخریج اور اسنادی حیثیت ذکر کی جاتی ہے:
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز میں لمبا قیام کرنا موت کی تکالیف کو کم کردیتا ہے۔ (تاریخ اصفہان:124/1،الرقم:47،ط:دارالکتب العلمیۃ)
تخریج الحدیث:
۱۔اس روایت کو امام ابونعیم اصفہانی (م430ھ) نے’’تاریخ اصفہان‘‘ (124/1، الرقم:47، ط:دارالکتب العلمیۃ) میں نقل کیا ہے۔
۲۔اس روایت کو ابو منصور الدیلمی رحمہ اللّٰہ (م 558ھ) نے ’’مسند الفردوس‘‘ میں نقل کیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ (م 852 ھ) نے ’’الغرائب الملتقطۃ‘‘ (602/5،رقم الحديث:1954،ط:جمعية دارالبر) میں ’’مسند الفردوس‘‘ کے حوالے سے نقل کی ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
مذکورہ روایت کی سند میں بعض رواۃ مجہول ہیں اور ایک راوی ’’أحمد بن محمد بن عمر اليمامي‘‘ کے بارے میں محدثین کرام نے سخت جرح کی ہے۔
امام ابوحاتم رازی(م327ھ)فرماتے ہیں: یہ جھوٹا ہے، میں نے ان سے احادیث لکھی تھی اور میں ان سے کچھ بیان نہیں کرتا۔
امام ابن عدی (م365ھ) فرماتے ہیں کہ یہ ثقات سے منکر روایات بیان کرتا ہے۔
امام دارقطنی (م385ھ) فرماتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے۔
مذکورہ روایت کا شاہد:
حافظ ابن ابی الدنیا(م281ھ) نے’’ كتاب التهجد وقيام الليل‘‘ (518/1، رقم الحدیث:517، ط:مکتبۃ الرشد) میں ’’محمد بن منکدر‘‘سے مرسلاً نقل کیا ہے، لیکن اس روایت کی سند میں راوی ’’محمد بن ابی حميد ابوابراہیم‘‘ راوی پر سخت کلام کیا گیا ہے۔
امام ابوحاتم رازی نے ان کو منکرالحدیث کہا ہے۔
امام بخاری (م256ھ) نے بھی ان کو منکر الحدیث کہا ہے۔
امام ترمذی (م279ھ) نے ’’سنن ترمذی ‘‘ میں ان کا ذکر کر کے کہیں کہا کہ ان کی تضعیف کی گئی ہے اور کہیں یوں نقد کیا کہ منکر الحدیث اور کہیں کہا کہ محدثین کے ہاں یہ روای قوی نہیں ہے۔
امام ابن حبان (م354ھ) فرماتے ہیں: وہ مغفل تھا اور اسناد کو تبدیل کردیتا اور نہیں سمجھتا تھا اور اس کے ساتھ متن کو چسپاں کردیتا اور اس کو علم بھی نہ ہوتا، چنانچہ جب یہ بات ان کی روایات میں زیادہ ہوگئی تو ان کی روایت سے استدلال کرنا باطل ہوگیا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’’محمد بن ابی حميد‘‘ پر محدثین کرام نے سخت جرح کی ہے۔
خلاصۂ کلام:
سوال میں ذکر کردہ روایت سند میں مجہول اور منکر رواۃ کی وجہ سے شدید ضعیف ہے، اگرچہ اس روایت کا شاہد موجود ہے، لیکن چونکہ وہ بھی سند کے اعتبار شدید ضعیف ہے، اس لیے اس شاہد کی وجہ سے اس روایت کو تقویت نہیں ملے گی، لہذا اس روایت کو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کر کے بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
تاہم یہ بات واضح رہے کہ لمبے قیام کے ساتھ نماز ادا کرنا افضل ہے، یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "لمبے قیام والی نماز" (صحیح مسلم، حدیث نمبر:1769)
لہذا نماز میں لمبا قیام فضیلت کا باعث ہے اور اس کی برکات ضرور حاصل ہوں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تاريخ أصفهان: (الرقم: 47، 124/1، ط: دار الکتب العلمية)
حدثنا محمد بن جعفر، ثنا الفتح بن إدريس، ثنا أحمد بن محمد بن عمر، ثنا عبد الرحمن بن محمد بن سعيد اليمامي، ثنا القاسم بن اليسع المديني، عن أبيه، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طول القنوت في الصلاة يخفف سكرات الموت».
أخرجه الديلمي كما في "الغرائب الملتقطة"(602/5(1954).
و في إسناده أحمد بن محمد بن عمر اليمامي ذكره الذهبي في "الميزان"(412/1)(559) وقال:559 - أحمد بن محمد بن عمر بن يونس بن القاسم الحنفي، أبو سهل اليمامي.
عن جده، وعبد الرزاق كذبه أبو حاتم وابن صاعد.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال مرة - متروك.
وقال ابن عدي: حدث عن الثقات بمناكير وكان ينسخ عجائب.
زاد الحافظ ابن حجر العسقلاني في"اللسان"(282/1)(838) وقال:وقال ابن يونس: قال لنا علان: كان سلمة بن شبيب يكذبه.وقال الخطيب: كان غير ثقة.
وقال ابن أَبِي حاتم، عَن أبيه: كتبت عنه وكان كذابا، وَلا أحدث عنه.
وقال ابن حبان: لَا يُحْتَجُّ به.

شاھدالحدیث:
أخرجه ابن أبي الدنيا في " كتاب التهجد وقيام الليل"(518/1،رقم الحدیث:517،ط:مکتبۃ الرشد) وقال: حدثنا الحسن بن داود بن محمد بن المنكدر حدثنا سالم بن أبي اليسع المدني عن محمد بن أبي حميد عن محمد بن المنكدر قال قال رسول الله طول القيام في الصلاة يهون من سكرات الموت.
وفي إسناده" ‌محمد ‌بن ‌أبى ‌حميد "قال أبو حاتم الرزاي كما في "الجرح والتعديل"(233/7)(1276): محمد بن ابى حميد احاديثه احاديث مناكير وقال أيضاً: وهو منكر الحديث ضعيف الحديث مثل ابن ابى سبرة ويزيد بن عياض يروى عن الثقات بالمناكير.
ذكره البخاري في "الأوسط"(184/2)(2234)وقال: ‌محمد ‌بن ‌أبي ‌حميد ويقال حماد بن أبي حميد أبو إبراهيم الزرقي الأنصاري المدني منكر الحديث.وابن حبان في "المجروحين"(282/2)(954)وقال: كان شيخًا مغفلًا، يقلب الأسانيد ولا يفهم، ويلزق به المتن ولا يعلم، فلما كثر ذلك في أخباره بطل الاحتجاج بروايته.وأبوعيسى الترمذي في" السنن"(500/1)(489) وقال: يضعف، وقال مرة: منكر الحديث، ومرة(27/4)(2151): وليس هو بالقوي عند أهل الحديث.ومرة(112/4)(2664) ومحمد يضعف من قبل حفظه.

ظفرالأماني: (ص: 199، ط: قديمى كتب خانه)
وثانيها: أن لا يكون الحديث شديد الضعف، بأن تفرد بروايته شديد الضعف، كالكذب، وفاحش الغلط، والمغفل، وغير ذلك، أو كثرَتْ طُرقه، لكن لم يخل طريق من طرقه عن شِدَّةِ الضعف، وذلك لأن كون السندِ شديد الضعف، مع عَدَم ما يُجبَرُ به نقصانه، يجعله في حكم العدم، ويُقربه إلى الموضوع والمخترع، الذي لا بجوز العمل به بحال.

صحيح مسلم: (رقم الحديث: 1769)
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ابي سفيان ، عن جابر ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، " اي الصلاة افضل؟ قال: طول القنوت ".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 240 Feb 06, 2024
"namaz mein lamba qayam karna mout ki takleef ko cum kardeta hai" hadees ki tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.