سوال:
مفتی صاحب! 120 گز کا مکان ہے، والد صاحب نے تقریباً 40 سال پہلے خریدا تھا، اس کے بعد بڑے بیٹے نے اپنے ذاتی پیسوں سے اس کی تعمیرات کا کام کیا ہے، جس میں ان کے دونوں بھائیوں کی رہائش تھی۔ آج بڑے بھائی سے اس کی بہنیں اس والد کی زمین کا حصہ مانگ رہی ہیں۔
1) سوال یہ ہے کہ زمین کی قیمت 40 سال پہلے کی ہوگی یا آج مقررہ قیمت کے حساب سے تقسیم ہوگی؟
2) شریعت میں پانچ بہنوں اور دو بھائیوں کا حصہ کیا ہوگا؟
جواب: 1) واضح رہے کہ اگر میراث کئی سالوں بعد تقسیم ہو رہی ہو تو اس میں چیزوں کی قیمت کا تعین موجودہ قیمت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔
الف) لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر بڑے بھائی نے والد صاحب کے مکان میں ان کی اجازت سے اپنے لیے تعمیرات کروائی تھی یا والد صاحب کے انتقال کے بعد تمام ورثاء کی اجازت سے اپنے لیے تعمیرات کروائی تھی تو اس صورت میں بڑے بھائی نے جتنی رقم اور اخراجات مکان کی تعمیرات میں کیے تھے، وہ ان کو ملیں گے۔
ب) اور اگر بڑے بھائی نے تمام ورثاء کی اجازت لیے بغیر سب کے لیے یہ تعمیرات کروائی تھی تو اس صورت میں تعمیر میں لگائی گئی یہ رقم اور اخراجات بڑے بھائی کی طرف سے تبرع و احسان ہوں گے اور ان کو تعمیرات پر لگائی ہوئی رقم اور اخراجات نہیں ملیں گے۔
ج) اگر یہ تعمیرات ورثاء کی اجازت کے بغیر بڑے بھائی نے اپنے لیے کی تھی تو ان کو اپنی تعمیر کردہ عمارت کے بدلہ میں صرف اس عمارت کے ملبے کی قیمت ملے گی۔
2) مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو نو (9) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو (2) اور پانچوں بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو ہر ایک لبھائی کو %22.22 فیصد اور ہر ایک بہن کو %11.11 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 176)
وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ... الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (747/6، ط: دار الفکر)
(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء...قوله ( عمر دار زوجته الخ ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين . وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له وله رفعه إلا أن يضر بالبناء فيمنع ولو بنى لرب الأرض بلا أمره ينبغي أن يكون مبترعا كما مر إ ه…. قوله ( والنفقة دين عليها ) لأنه غير متطوع في الإنفاق فيرجع عليها لصحة أمرها فصار كالمأمور بقضاء الدين ، زيلعي ، وظاهره وإن لم يشترط الرجوع، وفي المسألة اختلاف وتمامه في حاشية الرملي على جامع الفصولين قوله ( فالعمارة له ) هذا لو الآلة كلها له فلو بعضها له وبعضها لها فهي بينهما ط عن المقدسي قوله ( بلا إذنها ) فلو بإذنها تكون عارية ط.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (314/3، ط: دار الجيل)
إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: ...
الاحتمال الثاني - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك للشركة بدون إذن الشريك كان متبرعا...
الاحتمال الرابع - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی