سوال:
مفتی صاحب! کیا صدقے کی چیز (گوشت، بریانی وغیرہ) امیر وغریب سب کھا سکتے ہیں؟ نیز چونکہ صدقے سے بلائیں ٹلتی ہیں تو کیا صدقہ کھانے والوں کو اس سے نقصان ہوتا ہے؟
جواب: ۱) واضح رہے کہ صدقات کی دوقسمیں ہیں: صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ غیر واجبہ
صدقات واجبہ سے مراد زکوۃ، صدقہ فطر، کفارہ، فدیہ، نذر وغیرہ ہیں، اس کا حکم یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو سید نہ ہو اور مستحق زکوۃ ہو، وہ صدقاتِ واجبہ کو کھا سکتا ہے۔ نیز صدقہ دینے والے کے اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ)، فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی، وغیرہ) اور شوہر یا بیوی صدقاتِ واجبہ نہیں کھا سکتے ہیں۔
صدقاتِ نافلہ کا حکم یہ ہے کہ اس کو ہر شخص کھا سکتا ہے، خواہ سید ہو یا غیر سید، مالدار ہو یا غریب، صدقہ دینے والے کے قریبی رشتہ دار، اسی طرح صدقہ دینے والا خود بھی اس میں سے کھاسکتا ہے، البتہ اگر کسی وجہ سے صدقہ نکالا جا رہا ہو تو صدقہ کرنے والا اس صدقہ میں سے نہ کھائے اور جو افراد اس کی کفالت میں ہیں ان کو بھی نہ کھلائے، بلکہ اس صورت میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ کسی مستحق شخص کو دے دے۔
۲) صدقہ کی چیز کھانے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 2470، 254/4، ط: دار الغرب الاسلامي)
عن عائشة «أنهم ذبحوا شاة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما بقي منها؟ قالت: ما بقي منها إلا كتفها، قال: بقي كلها غير كتفها».
الترغيب و الترهيب للمنذري: (5/2، ط: دار الكتب العلمية)
ومعناه أنهم تصدقوا بها إلا كتفها.
الدر المختار: (346/2، ط: دار الفكر)
(ولا) إلى (من بينهما ولاد) ولو مملوكا لفقير (أو) بينهما (زوجية) ولو مبانة وقالا تدفع هي لزوجها.
بدائع الصنائع: (47/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وكما لا يجوز صرف الزكاة إلى الغني لا يجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر لعموم قوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] وقول النبي صلى الله عليه وسلم «لا تحل الصدقة لغني» ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث لكونه غسالة الناس لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولا يجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة والحاجة للفقير لا للغني.وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی