سوال:
مفتی صاحب ! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی قرآن کا کوئی سپارہ پڑھنے کا کہتا ہے اور ہم اس وقت پڑھ نہں پاتے اور بعد میں یاد نہں رہتا کہ کون سا سپارہ پڑھنے کو ملا تھا تو ایسے میں دو تین سپارے اگر جمع ہو جائیں، جو معلوم نہ ہوں تو کیا ہم اِس طرح نیت کر سکتے ہیں کہ میں یہ پورا قرآن جو رمضان میں پڑھ رہی ہوں تو جس جس نے مجھے سپارہ پڑھنے کا کہا تھا، میں اس قرآن کے پڑھنے میں ان سب کی نیت کر سکتی ہوں؟ کیا ایسا کرنے سے میرا وہ ذمہ ادا ہو جائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ کسی کے ذمے قرآن مجید کے سپارے پڑھنے کی ذمہ داری لگانے سے اس شخص پر ان سپاروں کا پڑھنا شرعاً لازم نہیں ہوتا ہے، البتہ جس نے پڑھنے کا کہا ہے، اگر اُس سے کہہ دیا کہ میں پڑھ دوں گا تو بلا عذر نہ پڑھنے کی صورت میں وعدہ خلافی کا گناہ لازم آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (16/1، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان"
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (77/44، ط: دار السلاسل)
قال الحنفية: الخلف في الوعد حرام إذا وعد وفي نيته أن لا يفي بما وعد، أما إذا وعد وفي نيته أن يفي بما وعد فلم يف، فلا إثم عليه
رد المحتار: (427/6، ط: دار الفکر)
أن عين الكذب حرام. قلت: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون} [الذاريات: ١٠]- وقال - عليه الصلاة والسلام - «الكذب مع الفجور وهما في النار»۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی