سوال:
حضرت ! سوال یہ ہے کہ بندے نے تین سال کی اقساط پر زمینیں خریدی ہیں، ابھی ایک سال ہوا ہے، ان میں کچھ زمیںوں میں دوکان بنانے کا ارادہ ہے اور کچھ حصہ آگے بیچنے کا ارادہ ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ ان زمینوں میں سے کس کس زمین پر زکوة واجب ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ ہر وہ ملکیت جو اس نیت سے خریدی جائے کہ آئندہ اس کو فروخت کر کے یا اس کے ذریعے تجارت کرکے نفع کمایا جائے گا، سو وہ ملکیت اگر نصابِ زکوٰۃ کو پہنچتی ہے تو اس پر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔
اس تفصیل کی روشنی میں جو آپ نے پلاٹ فروخت کر کے نفع حاصل کرنے کی نیت سے خریدے ہیں، سال گزرنے پر رواں سال کی قسطیں منہا کرنے کے بعد اس کی قیمتِ فروخت پر زکوة واجب ہوگی، البتہ جو زمین کا حصہ دکانوں کی تعمیر کے لیے خریدا گیا ہے، ان کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (273/2)
"والأصل أن ماعدا الحجرین والسوائم انما یزکی بنیۃ التجارۃ… وشرط مقارنتھا لعقد التجارۃ وھو کسب المال بالمال بعقد شراء أو اجارۃ أو استقراض ولو نوی التجارۃ بعد العقد أو اشتری شیئاً للقنیۃ ناویاً أنہ إن وجد ربحاً باعہ لازکوۃ علیہ".
رد المحتار: (مطلب فی زکاۃ ثمن المبیع وفاء کتاب الزکاۃ، 15/2)
"والاصل ان ما عدا الحجرین والسوائم انما یزکی بنیۃ التجارۃ بشرط عدم المانع المؤدی الی الثنی وشرط مقارنتہا لعقد التجارۃ وہو کسب المال بالمال بعقد شراء او اجارۃ ".
(قولہ ما عدا الحجرین) ..الخ وما عدا ما ذکر کالجواہر والعقارات والمواشی العلوفۃ والعبید والثیاب والامتعۃ ونحو ذلک من العروض".
و فیہ ایضا: (کتاب الزکوٰۃ، 7/2)
"ولیس (الزکاۃ) فی دور السکنیٰ وثیاب البدن واثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ لانہا مشغولۃ بحاجتہ الاصلیۃ ولیست بنامیۃ ایضاً".
الھندیۃ: (179/1)
"(الفصل الثانی فی العروض): الزکاۃ واجبۃ فی عروض التجارۃ کائنۃ ماکانت اذا بلغت قیمتھا نصاباً من الورق والذھب۔ کذا فی الھدایۃ، ویقوم بالمضروبۃ، کذا فی التبیین۔ وتعتبر القیمۃ عند حولان الحول بعد أن تکون قیمتھا فی ابتداء الحول مائتی درھم من الدراھم الغالب علیھا الفضۃ، کذا فی المضمرات۔ ثم فی تقویم عروض التجارۃ التخییر یقوم بأیھما شاء من الدراھم والدنانیر، الا اذا کانت لاتبلغ بأحدھما نصاباً فحینئذ تعین التقویم بما یبلغ نصابا۔ ھکذا فی البحر الرائق".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی