سوال:
حضرت ! کیا رمضان کے تین عشروں والی حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ اور یہ بھی فرما دیں کہ ضعیف ہونے کی صورت میں بھی کیا ہم اس کو فضائل میں بیان کر سکتے ہیں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ الفاظ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت کا ایک حصہ ہے۔
پہلی بات:
یہ روایت حضرت ابوہریرہ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنھما سے درج ذیل کتب میں نقل کی گی ہے۔
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ، فَقَالَ: "أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللَّهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يَزْدَادُ فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ". قَالُوا: لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ. فَقَالَ: "يُعْطِي اللَّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ، أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ، وَاسْتَكْثِرُوا فِيهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَيْنِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتَيْنِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَتَسْتَغْفِرُونَهُ، وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَتَعُوذُونَ بِهِ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ أَشْبَعَ فِيهِ صَائِمًا، سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ".( صحيحُ ابن خُزَيمة
:ج 2، ص :911،ط: صحيحُ ابن خُزَيمة ، مکہ ۔شعب الإيمان
:ج: 5، ص:223،ط:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع ، رياض۔فضائل الرمضان لابن أبي الدنيا:ص: 69،ط:دار السلف، رياض۔)
اور اس روایت میں علی بن زید جدعان روای ہے، اور ان سے متعلق محدثین کے اقوال کافی حد تک مختلف ہیں، بعض محدثین نے ان پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے اور بعض محدثین نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے، لہذا اختلاف اقوال کی وجہ سے محدثین کے اصول کے مطابق بالکل ساقط الاعتبار نہیں ہوتی ہے۔
دوسری بات:
محدثین کے سخت ترین کلمات میں سے “منکر” کا لفظ ہے، جو ابن ابی حاتم اور البانی رحمھما اللہ نے اس روایت کے متعلق کہے ہیں.
ان دونوں حضرات کے علاوہ محدثین نے اس روایت اور اس روایت کے راوی علی بن زید بن جدعان کے متعلق ضعف کا قول تو کہا ہے، لیکن اس روایت کو من گھڑت اور موضوع کسی نے بهى قرار نہیں دیا ہے۔
قال الھیثمی فی مجمع الزوائد:١٨٨/٤
علی بن زید فیہ کلام و حدیثہ حسن۔
تیسری بات:
مذکورہ روایت کا تعلق فضائل کے باب سے ہے اور فضائل میں اس قسم کی روایت پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
وفی المرقاة:
أن الحديث ضعيف، وهو يعمل به في فضائل الأعمال اتفاقا، ففي المواعظ ينبغي أن يكون بالأولى.
خلاصہ کلام:
یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ضرور ہے، لیکن اس پر من گھڑت کا حکم لگانا اور اس کو بالکل باطل روایت قرار دینا درست نہیں ہے، لہذا اس روایت کو بیان کیا جاسکتا ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی