resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: رمضان کی فضیلت سے متعلق روایت کی تحقیق(1516-No)

سوال: حضرت ! کیا رمضان کے تین عشروں والی حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ اور یہ بھی فرما دیں کہ ضعیف ہونے کی صورت میں بھی کیا ہم اس کو فضائل میں بیان کر سکتے ہیں؟

جواب: سوال میں ذکرکردہ ’’ضعیف‘‘ ہے ،البتہ چونکہ اس روایت کا تعلق فضائل کے باب سے ہے اور فضائل کے باب میں ضعیف روایت قابلِ قبول ہوتی ہے، لہذا مذکورہ روایت کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔
نیز واضح رہے کہ رمضان کا پورا مہینہ میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کے نازل ہونے، بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مہینہ ہے،اور رمضان المبارک کی یہ تینوں فضیلتیں دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور ہر عشرے کی خاص فضیلت سوال میں ذکرکردہ حدیث سے ثابت ہے، اگرچہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے،البتہ ہر عشرے کی مخصوص دعا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ ذیل میں اس روایت کی ترجمہ،تخریج اور اسنادی حیثیت ذیل میں ذکر کرکی جاتی ہے۔
سوال میں ذکرکردہ فضلیت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں بیان کی گئی ہے،ذیل میں مکمل کاترجمہ ذکرکیا جاتا ہے:
ترجمہ:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو ہمیں ایک خطبہ دیا ، اس میں فرمایا: اے لوگو!تمہارے اوپر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے ، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں کھڑے ہونے (تراویح)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے ، جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیےکوئی غیرفرض عبادت (سنت یا نفل )ادا کرے گا ، تواس کو رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کےستر فرضوں کے برابر ثواب ملےگا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔یہ ہمدردی ، غم خواری کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں مؤمنوں کے رزق میں اضافہ کیاجاتاہے ، جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب کےحصول کے لیے) افطار کرایا،تو اس کےلیے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگااور اس کو، روزہ دار کے ذواب میں کمی کئے بغیر روزہ دار کے برابرثواب دیاجائے گا۔حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطارکرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا ۔آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی اس شخص کو بھی ثواب عطاء فرمائےگا،جو ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ یالسی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کو افطار کرادے۔
یہ ایسا مبارک مہینہ ہے ،جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہےاور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش ديتا اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو، دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں، جن سے تم بےپرواہ نہيں ہو سكتے،جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنااور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا۔جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائےگا ،وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كرےگا۔(صحیح ابن خزیمۃ، حدیث نمبر:1887، ط:المکتب الإسلامی)
تخریج الحدیث:
۱۔اس روایت امام ابن خزیمہ(م311ھ)نے’’صحیح ابن خزیمہ‘‘(2/911،رقم الحديث:1888،ط:المكتب الإسلامي)میں ذکرکیاہے۔
۲۔حافظ ابن ابی الدنیا(م281ھ) نے’’ فضائل رمضان ‘‘(69،رقم الحدیث:41،ط: دار السلف)میں ذکرکیاہے۔
۳۔حافظ حارث بن محمد ابن ابی اسامہ (م282ھ) نے’’ مسند الحارث‘‘(1/412،رقم الحديث:321،ط: مركز خدمة السنة والسيرة النبوية)میں ذکرکیاہے۔
۴۔ ابن شاہین (م385) نے‘‘فضائل رمضان ’’(145،رقم الحديث:16)،ط: دار ابن الأثير)میں ذکرکیاہے۔
۵۔ابوعبداللہ حسین بن اسماعیل محاملی(م330ھ)نے’’ أمالي ‘‘(286،رقم الحدیث:293،ط: المكتبة الإسلامية)
۶۔امام بیہقی (م458ھ)نے’’ شعب الإیمان ‘‘(5/ 222،رقم الحديث:3336،ط:مکتبۃ الرشد) ’’فضائل الأوقات ‘‘(146،رقم الحديث:37،ط: مكتبة المنارة) اور ’’الدعوات الکبیر‘‘(2/ 151،رقم الحديث:532،ط:غراس للنشر)میں ذکرکیاہے۔
۷۔شجری(م499ھ)نے ’’الأمالي الخميسية‘‘(1/354،رقم الحديث:1248،ط:دارالكتب العلمية)میں ذکرکیاہے۔
۸۔حافظ قوام السنۃاسماعيل بن محمد (م535ھ)نے’’ الترغیب و الترھیب ‘‘(2/349،رقم الحديث:1753،ط:دارالحدیث)میں ذکرکیاہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
حافظ ابن خزیمہ (م311ھ)نے اس روایت کا باب ان الفاظ میں باندھا ہے’’ باب فضائل شهر رمضان إن صح الخبر ‘‘یعنی یہ باب ماہِ رمضان کے فضائل کے بارے میں ہے، بشرطیکہ روایت صحیح ہو۔(۲)
امام ابوحاتم رازی ؒ(م327ھ)نے اس روایت کو’’منکر‘‘ کہا ہے۔(۳)
حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ)فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور ابن خزیمہ نے اس کو روایت کیاہے اور اس کی صحت پر بات کو معلق کیا ہے۔(۴)
علامہ ابن عدی ؒ (م365ھ)نے اس روایت کو’’ عبد العزيز بن عبد الله‘‘کی سند سے نقل کرنے کے بعد فرمایا:اس راوی کی روایات میں عام طور پر ثقات کی متابعت نہیں ہوتی ہے۔(۵)
نیز مذکورہ روایت مختلف سندوں کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ،جو مجموعی طور چار سندیں ہیں اور چاروں سندوں کا مدار ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘پر ہے اور محدثین کرام کی ایک جماعت نے انہیں ضعیف قرار دیا اور بعض محدثین کرام نے ان پر سخت جرح کی ہے اور بعض نے ان کی بعض روایات کی تصحیح یا کم ازکم تحسین کی ہے،جیسا کہ امام ترمذی (م279ھ)نے ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘سے مروی ایک روایت کے بارے میں فرمایا:حدیث حسن صحیح(۶)
اور امام ذہبی(م748ھ) نے ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘کو صالح الحدیث قرار دیا ۔(۷)اورعلامہ ابن ملقن(م804ھ) نے انہیں’’حسن الحدیث ‘‘کہا ہے۔(۸)
حافظ ابن خزیمہ(م311ھ)نے ان کو حافظہ کی جہت سے ضعیف قرار دیا ہے ،نہ کذب کی جہت سے۔(۹) اور جس روایت کے روای کو حافظہ کی جہت سے ضعیف قرار دیاگیا ہو تو ایسی روایت کا ضعف کم درجے کا ہوتا ہے۔(۱۰) اور ایسی کم ضعف والی پر روایت فضائل کے باب میں عمل کیا جاسکتا ہے۔(۱۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(۱)صحيح ابن خزيمة:(2/911،رقم الحديث:1888،ط:المكتب الإسلامي)
ثنا علي بن حجر السعدي، ثنا يوسف بن زياد، ثنا همام بن يحيى، عن علي بن زيد بن جدعان، عن سعيد بن المسيب، عن سلمان قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال: «أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر، جعل الله صيامه فريضة، وقيام ليله تطوعا، من تقرب فيه بخصلة من الخير، كان كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه، وهو شهر الصبر، والصبر ثوابه الجنة، وشهر المواساة، وشهر يزداد فيه رزق المؤمن، من فطر فيه صائما كان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار، وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء» ، قالوا: ليس كلنا نجد ما يفطر الصائم، فقال: " يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على تمرة، أو شربة ماء، أو مذقة لبن، وهو شهر أوله رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار، من خفف عن مملوكه غفر الله له، وأعتقه من النار، واستكثروا فيه من أربع خصال: خصلتين ترضون بهما ربكم، وخصلتين لا غنى بكم عنهما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم: فشهادة أن لا إله إلا الله، وتستغفرونه، وأما اللتان لا غنى بكم عنهما: فتسألون الله الجنة، وتعوذون به من النار، ومن أشبع فيه صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة "
و ھذا الحدیث أخرجه ابن الدنيا في ’’فضائل رمضان‘‘(69)(41) وابن أبي أسامة في ’’مسنده‘‘(1/412)(321) و ابن شاهين في ’’فضائل رمضان ‘‘(145)( 16) والمحاملي في ’’الأمالي‘‘(286)(293) والبيهقي في ’’ شعب الإیمان ‘‘(5/ 222)( 3336) وفي ’’فضائل الأوقات ‘‘(146)(37) وفي ’’الدعوات الکبیر‘‘(2/ 151)(532) والشجري في ’’الأمالي الخميسية‘‘(1/354)(1248) و قوام السنة إسماعيل بن محمد في ’’ الترغیب و الترھیب ‘‘(2/349)(1753)
و هذا الحديث قدروي من اربعة طرق تدور في نهايتها على‘‘علي بن زيد بن جدعان، عن سعيد بن المسيب،عن سلمان‘‘ و علي بن زيد بن جدعان هذا قال فيه ابن سعد : ولد وهو أعمى ، وكان كثير الحديث ، وفيه ضعف ، ولا يحتج به .وقال أبو زرعة : ليس بقوي . وقال أبو حاتم : ليس بقوي يكتب حديثه ، ولا يحتج به ، وهو أحب إلي من يزيد بن زياد ، وكان ضريرا ، وكان يتشيع . وقال الترمذي : صدوق إلا أنه ربما رفع الشيء الذي يوقفه غيره .وقال النسائي : ضعيف . وقال ابن خزيمة : لا أحتج به لسوء حفظه .كما في تهذيب التهذيب:(7/322)(544) .

(۲)اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیري:(3/69،(2196)،ط: دار الوطن )
وعن سلمان الفارسي- رضي الله عنه- قال: "خطبنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أخر يوم من شعبان ۔۔۔ ". رواه الحارث بن أبي أسامة، وابن خزيمة في صحيحه ثم قال: إن صح الخبر. ومن طريقه رواه البيهقي وأبو الشيخ بن حيان.
کذا في اتحاف المھرۃلابن حجر العسقلاني :( 5/560)(5941)،ط: مجمع الملك فهد)
کذا في(الزواجر عن اقتراف الکبائر لابن حجر الهيتمي:1/328،ط: دار الفكر)

(۳)العلل لابن أبي حاتم:(3/110 ،ط:مطابع الحميضي)
فقال: هذا حديث منكر؛ غلط فيه عبد الله ابن بكر ؛ إنما هو: أبان بن أبي عياش، فجعل عبدالله بن بكر «أبان» : «إياس».

(۴) الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي:(6/512،ط:مكتبة الرشد )
أوردابن عدي هذا الحديث وقال : وعبد العزيز بن عبد الله هذا عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات.

(۵) سنن الترمذي:(رقم الحدیث: 545،ط: دارالغرب الاسلامی)
أخبرنا علي بن زيد بن جدعان، ۔۔۔۔۔الخ ۔هذا حديث حسن صحيح

(۶) تلخيص الذهبي:(4/551،رقم الحديث:8543،ط:دارالكتب العلمية)
ابن جدعان صالح الحديث
أیضاً: (4/613،رقم الحديث: 8699،ط:دارالكتب العلمية)
إسناده قوي.

(۷)تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج لابن الملقن:(1/477،ط:دار حراء )
وفيهَا عَلّي بن زيد بن جدعَان وَهُوَ حسن الحَدِيث أخرج لَهُ مُسلم مُتَابعَة

(۸) میزان الاعتدال للذھبي:(3/127،ط: دارالمعرفۃ)
علي بن زيد بن جدعان [م، عو] .۔۔۔وقال ابن خزيمة: لا أحتج به لسوء حفظه.

(۹)تعلیق أحمدفتحی علی المقنع فی علوم الحدیث:(68،ط: دارالکتب العلمیة)
يقسم الحديث الضعيف إلى أنواع كثيرة جدا، ۔۔۔وهو ثلاثة أنواع:
النوع الأول: الضعيف ضعفا يسيراً، وهو أنواع كثيرة منها: « ما نشأ عن سوء الحفظ، أو الاختلاط، أوالانقطاع، أو الإرسال، أو التدليس، أو الإعضال، أو الشذوذ، أو الوهم، أو العلة القادحة، أو المضطرب، أو المقلوب ۔۔۔

(۱۰)الاذكارللنووي:(31،ط:مؤسسة الرسالة)
[ فصل ] : قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم : يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعا.
كذا في القول البديع للسخاوي:(472، ط: مؤسسة الريان)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

ramzan ki fazeelat say mutalliq riwayat ki tehqeeq, Confirmation of Hadith, Hadees, Narrations related to the Virtue of Ramadan

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees