سوال:
مفتی صاحب! تبلیغ والے تبلیغی جماعت کی تحریک کو کارِ نبوّت و ختمِ نبوّت کہتے ہیں، کیا یہ غلو ہے؟ اس کام کو کس قدر کرنے اور اس کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے؟
جواب: حدیث شریف میں آتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً"۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 3461)
(میرا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ، اگرچہ ایک ہی آیت ہو)
" بَلِّغُوا" کا لفظ "تبلیغ" سے نکلا ہے، جس کے معنی "بات پہنچانے" کے ہیں، چنانچہ "دین کی تبلیغ" کا مطلب دین کی بات پہنچانا ہے اور دین کی باتیں دو قسم کی ہیں:
١۔ امر بالمعروف (اچھے اور نیکی کے کاموں کی دعوت دینا۔
٢۔ نہی عن المنکر (برے اور گناہ کے کاموں سے رکنے کی دعوت دینا)
اور یہی دعوت و تبلیغ کی حقیقت اور اس کی روح ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کو "کار نبوت" کہنا اس معنی میں ہے کہ اللہ رب العزت نے حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ ذمہ داری عطا فرمائی تھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں، انہیں دین کی دعوت دیں اور خیر کی بات بتائیں، لیکن جب انبیاء کرام علیہم السلام کے دنیا میں آنے کا سلسلہ ختم ہوگیا تو چونکہ یہ کام قیامت تک جاری رہنے والا ہے، اس لیے بعد میں آنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان میں سے کچھ افراد ایسے ہوں جو یہ ذمہ داری اٹھائیں اور اس کام کو سنبھالیں اور جویہ کام کرے گا وہ نبیوں والا کام کرنے والا کہلائے گا۔
قرآن کریم میں بھی دعوت و تبلیغ کو نبی کی ذمہ داریوں میں سے قرار دیا گیا ہے: فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغ.﴿الشوری: 48﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر) یہ لوگ اگر پھر بھی منہ موڑیں تو ہم نے تمہیں ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ہے، آپ کی ذمہ داری صرف بات پہنچانا (تبلیغ) ہے۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَني ﴿يوسف: 108﴾
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ: یہ میرا راستہ ہے، میں پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی (یعنی وہ بھی اسے اپنا کام سمجھ کر کرتے ہیں)۔
لہٰذا تبلیغ کو "کار نبوت" کہنا درست اور بجا ہے اور اسے غلو کہنا درست نہیں ہے۔
اور جہاں تک رہی بات تبلیغ کو "ختم نبوّت" کہنے کی تو اس جملے کی وضاحت یہ ہے کہ اس کام کو ختم نبوت نہیں کہا جاتا، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ ختم نبوّت کے صدقے ہمیں یہ کام ملا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ آخری نبی تھے، اس لیے اب دنیا میں کوئی نبی آکر دعوت کا کام نہیں کرے گا، بلکہ یہ کام ان کی طرف منتقل ہوا ہے، جو انبیاءؑ کے بعد آکر اس کو ادا کرسکتے ہوں اوریہی بات قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں بیان کی گئی ہے:
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [آل عمران: 104]
ترجمہ: اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
البتہ ہر زمانے کے حالات کے مطابق تبلیغ کا طریقہ مختلف رہا ہے، لیکن شریعت نے کوئی خاص طریقہ فرض یا واجب نہیں قرار دیا، بلکہ مذکورہ معنی میں نفس تبلیغ کو ہر مسلمان کی ذمہ داری قرار دی ہے: "أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ".
ترجمہ: ”خبردار! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، پس امام (امیرالمؤمنین) لوگوں پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا، مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا۔“ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2558)
لہٰذا ہر شخص پر خود باعمل بننے اور اپنے زیر اثر افراد کو با عمل بنانے کی ترغیب اور حکم دینا واجب ہے، خواہ اس کا کوئی بھی مناسب طریقہ ہو، تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تبلیغ کا مروّجہ طریقۂ کار اگرچہ فرض یا واجب نہیں ہے، لیکن باعث خیر اور برکت ضرور ہے، اس لیے اس سے اپنی بساط کے مطابق جڑنا چاہیے جو کہ امت کے ہر طبقے کے لیے مفید ہے اور لوگوں میں ایمان و عمل والی زندگی پیدا کرنے کا ایک مؤثر اور مقبول ذریعہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
أحكام القرآن للجصاص: (315/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال الله تعالى ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر قال أبو بكر قد حوت هذه الآية معنيين أحدهما وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والآخر أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره لقوله تعالى ولتكن منكم أمة وحقيقته تقتضي البعض دون البعض فدل على أنه فرض على الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين ومن الناس من يقول هو فرض على كل أحد في نفسه ويجعل مخرج الكلام مخرج الخصوص في قوله ولتكن منكم أمة مجازا كقوله تعالى يغفر لكم من ذنوبكم ومعناه ذنوبكم والذي يدل على صحة هذا القول أنه إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين كالجهاد وغسل الموتى وتكفينهم والصلاة عليهم ودفنهم ولولا أنه فرض على الكفاية لما سقط عن الآخرين بقيام بعضهم به وقد ذكر الله تعالى الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر في مواضع أخر من كتابه فقال عز و جل كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وقال فيما حكى عن لقمان يا بني أقم الصلاة وأمر بالمعروف وانه عن المنكر واصبر على ما أصابك إن ذلك من عزم الأمور وقال تعالى وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما فإن بغت إحداهما علىالأخرى فقاتلوا التي تبغي حتى تفيء إلى أمر الله وقال عز و جل لعن الذين كفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون كانوا لا يتناهون عن منكر فعلوه لبئس ما كانوا يفعلون فهذه الآي ونظائرها مقتضية لإيجاب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وهي على منازل أولها تغييره باليد إذا أمكن فإن لم يمكن وكان في نفيه خائفا على نفسه إذا أنكره بيده فعليه إنكاره بلسانه فإن تعذر ذلك لما وصفنا فعليه إنكاره بقلبه.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (280/1، ط: دار الفکر، بیروت)
198: (عن عبد الله بن عمرو) بالواو (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (بلغوا عني) : أي: انقلوا إلى الناس، وأفيدوهم ما أمكنكم، أو ما استطعتم مما سمعتموه مني، وما أخذتموه عني من قول أو فعل، أو تقرير بواسطة أو بغير واسطة (ولو آية) أي: ولو كان المبلغ آية وهي في اللغة العلامة الظاهرة. قال زين العرب: وإنما قال " آية " لأنها أقل ما يفيد في باب التبليغ، ولم يقل حديثا لأن ذلك يفهم بطريق الأولى لأن الآيات إذا كانت واجبة التبليغ مع انتشارها، وكثرة حملتها لتواترها، وتكفل الله تعالى بحفظها وصونها عن الضياع والتحريف لقوله تعالى: {إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون} [الحجر: 9] فالحديث مع أنه لا شيء فيه مما ذكر أولى بالتبليغ، وأما لشدة اهتمامه عليه الصلاة والسلام بنقل الآيات لبقائها من سائر المعجزات، ولمساس الحاجة إلى ضبطها ونقلها إذ لا بد من تواتر ألفاظها، والآية ما وزعت السورة عليها اه.
والثاني: أظهر كما لا يخفى، وقال المظهر: المراد بالآية الكلام المفيد، نحو: من صمت نجا، والدين النصيحة، أي: بلغوا عني أحاديثي، ولو كانت قليلة. فإن قيل: فلم قال ولو آية ولم يقل ولو حديثا مع أنه المراد؟ قلنا: لوجهين، أحدهما: أنه أيضا داخل في هذا الأمر لأنه عليه الصلاة والسلام مبلغهم، وثانيهما: أن طباع المسلمين مائلة إلى قراءة القرآن وتعلمه وتعليمه ونشره، ولأنه قد تكفل الله بحفظه اه.
شرح النووي على مسلم: (23/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
ثم إن الامر بالمعروف والنهى عن المنكر فرض كفاية اذا قام به بعض الناس سقط الحرج عن الباقين واذا تركه الجميع أثم كل من تمكن منه بلا عذر ولا خوف ثم أنه قد يتعين كما اذا كان في موضع لا يعلم به الا هو أولا يتمكن من ازالته الا هو وكمن يرى زوجته أو ولده أو غلامه على منكر أو تقصير في المعروف.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی