سوال:
السلام علیکم! حضرت رہنمائی فرمائیں کہ قرآن پاک میں "خبیث" اور "مردود" کا لفظ آتا ہے، ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے؟ کیا یہ الفاظ گالی میں شمار ہوتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ گالی کا تعلق عرف اور استعمال کے ساتھ ہے، یعنی کوئی لفظ اپنی اصل وضع کے اعتبار سے گالی نہیں ہوتا، بلکہ عرف میں اسے گالی کے طور پر یا غلط طریقے سے استعمال کرنے سے گالی بن جاتا ہے، لہذا "خبیث اور مردود" جیسے الفاظ اگرچہ اپنی اصل وضع کے اعتبار سے گالی نہیں ہیں، لیکن اگر گالی کے طور پر استعمال کیے جائیں تو گالی میں شمار ہوں گے۔
البتہ قرآن کریم میں یہ الفاظ اپنے اصل وضع کردہ لغوی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، اس لیے یہ کہنا ہرگز درست نہیں ہے کہ قرآن پاک میں یہ الفاظ گالی کے ہیں۔
اس کے بعد یہ واضح رہے کہ "خبیث" عربی زبان میں "طیب" کی ضد ہے، طیب کے معنی ہیں "پاکیزہ" اور خبیث کے معنی ہیں "گندا"، چنانچہ ان دو لفظوں کا اطلاق اشیاء پر بھی ہوتا ہے اور افراد پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورہ آیت میں ان کا اطلاق اشیاء پر ہوا ہے:
"قلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون". [المائدة : 100]
ترجمہ: (اے رسول! لوگوں سے) کہہ دو کہ ناپاک اور پاکیزہ چیزیں برابر نہیں ہوتیں، چاہے ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیں اچھی لگتی ہو۔
اور ذیل کی آیت میں ان کا اطلاق افراد پر کیا گیا ہے:
"الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ". [النور : 26].
اور جہاں تک "مردود" کا تعلق ہے تو لفظ "مردود" اردو میں جس معنی (راندۂ درگاہ، بد نصیب، نابکار) میں استعمال ہوتا ہے، وہ عربی کے لفظ "رجیم" کا ترجمہ ہے، جو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر "شیطان" کے لیے استعمال ہوا ہے، جیساکہ ایک آیت میں ہے: "قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ". [الحجر : 34]
اور ایک مقام پر ہے: "و حَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ". [الحجر : 17]
عربی میں "مردود" کے معنی ہیں: "لوٹایا ہوا، واپس کیا ہوا"، اگرچہ اردو میں بھی اس معنی میں استعمال ممکن ہے، لیکن یہ معروف نہیں ہے، اور قرآن کریم میں یہ صرف دو جگہ استعمال ہوا ہے:
1) "يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ". [هود : 76]
2) "يَقُولُونَ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ". [النازعات : 10].
چنانچہ اردو میں پہلے معنی کے لحاظ سے یہ سب و شتم (گالی) اور طعن و تشنیع کے طور پر استعمال ہوتا ہے، دوسرے معنی کے لحاظ سے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (169/2، ط: دار الفكر)
الأولى للإنسان فيما إذا قيل له ما يوجب الحد والتعزير أن لا يجيبه قالوا: ولو قال: يا خبيث الأحسن أن يكف عنه ولو رفع إلى القاضي ليؤدبه يجوز ولو أجاب مع هذا فقال بل أنت لا بأس كذا في البحر الرائق.
المنير للزحيلي: (196/18، ط: دار الفكر المعاصر دمشق)
الْخَبِيثاتُ لِلْخَبِيثِينَ، وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثاتِ، وَالطَّيِّباتُ لِلطَّيِّبِينَ، وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّباتِ أي النساء الزواني الخبيثات للخبيثين من الرجال، والخبيثون الزناة من الرجال للخبيثات من النساء لأن اللائق بكل واحد ما يشابهه في الأقوال والأفعال، ولأن التشابه في الأخلاق والتجانس في الطبائع من مقومات الألفة ودوام العشرة. وذلك كقوله تعالى: الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً، وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ أَوْ مُشْرِكٌ [النور 24/ 3].
وعلى هذا يكون المراد بالخبيثات والطيبات النساء، أي شأن الخبائث يتزوجن الخباث، أي الخبائث، وشأن أهل الطيب يتزوجن الطيبات.
ويجوز أن يكون المراد من الخبيثات الكلمات التي هي القذف الواقع من أهل الإفك، والمعنى: الخبيثات من قول أهل الإفك للخبيثين من الرجال، وبالعكس: والطيبات من قول منكري الإفك للطيبين من الرجال وبالعكس.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (24/133)
السب لغة واصطلاحا : الشتم، وهو مشافهة الغير بما يكره، وإن لم يكن فيه حد، كيا أحمق، ويا ظالم.
قال الدسوقي: هو كل كلام قبيح، وحينئذ فالقذف، والاستخفاف، وإلحاق النقص، كل ذلك داخل في السب.
الدر المختار: (72/4، ط: دار الفکر)
وَالضَّابِطُ أَنَّهُ مَتَى نَسَبَهُ إلَى فِعْلٍ اخْتِيَارِيٍّ مُحَرَّمٍ شَرْعًا وَيُعَدُّ عَارًا عُرْفًا يُعَزَّرُ وَإِلَّا لَا ابْنُ كَمَالٍ.
رد المحتار: (72/4، ط: دار الفکر)
(قوله والضابط إلخ) قال ابن كمال: فخرج بالقيد الأول النسبة إلى الأمور الخلقية، فلا يعزر في يا حمار ونحوه، فإن معناه الحقيقي غير مراد، بل معناه المجازي كالبليد، وهو أمر خلقي، وبالقيد الثاني النسبة إلى ما لا يحرم في الشرع، فلا يعزر في يا حجام ونحوه مما يعد عارا في العرف، ولا يحرم في الشرع، وبالقيد الثالث إلى ما لا يعد عارا في العرف فلا يعزر في يا لاعب النرد ونحوه مما يحرم في الشرع. اه. قلت: وهذا الضابط مبني على ظاهر الرواية، وقد علمت تفصيل الهداية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی