سوال:
میں نے ایک قصہ سنا ہے کہ حضرت علیؓ کے تمام گھر والے روزے سے تھے کہ ایک فقیر ان کے گھر آیا اور کھانا مانگا تو حضرت علی، حضرت فاطمہؓ اور حضرات حسنینؓ نے روٹی دی اور خود بھوکے رہے، پھر دوسرے دن روزہ رکھا، پھر افطاری کے وقت ایک فقیر آیا اور اس نے کھانا مانگا تو سب گھر والوں نے اس بھی روٹی دی اور خود بھوکے رہے، پھر تیسرے دن بھی روزہ رکھا تو افطاری کے وقت ایک مانگنے والا آیا تو اس کو بھی سب روٹیاں دے دی گئیں تو حضرت جبرائیلؑ آئے اور آپ ﷺ کو سلام کیا اور مبارکباد دی۔
مفتی صاحب! براہ کرم اس واقعہ کی تصدیق فرمادیں کہ کیا یہ واقعہ صحیح ہے اور اس کو بیان کرسکتے ہیں؟
جواب: سوال میں جس واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ من گھڑت ہے، لہذا اس واقعے کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ذیل میں تفصیلی واقعے کا ترجمہ، تخریج اور اسنادی حیثیت ذکر جاتی ہے:
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں بیمار ہوئے، جناب رسول اللہ ﷺ اور عام لوگوں نے ان کی عیادت کی انہوں نے کہا : اسے ابوالحسن! کاش، آپ اپنے بیٹوں کی جانب سے کوئی نذر مانتے اور ہر نذر جس کو پورا نہ کیا جائے تو وہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میرے دونوں بچے صحت مند ہوجائیں تو میں شکرانہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کے لیے تین روزے رکھوں گا، ان کی لونڈی نے کہا: اگر میرے دونوں سردار صحت مند ہوگئے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے تین روزے رکھوں گی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی اسی طرح کہا۔ دونوں بچے صحت مند ہوگئے اور جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے آل کے ہاں کچھ بھی نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ شمعون بن حاریا خیبری یہودی کے پاس گئے، اس سے تین صاع جو ادھار لیے اور انہیں لے کر گھر کے ایک کونے میں رکھا۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے ایک صاع جو لے کر پیسا اور اس کی روٹیاں پکائیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھرآئے اور کھانا اپنے سامنے رکھا۔ اس وقت ایک مسکین آیا کہا: آلِ محمد تم پر سلامتی ہو، مجھے کھانا کھلائیے، اللہ تعالیٰ تمہیں جنت کے دسترخوان سے کھلائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے سنا توہ شعر پڑھنے لگے: اے فاطمہ! اے فضل ویقین والی! اے تمام لوگوں سے بہتر کی بیٹی! کیا تم محتاج کو نہیں دیکھتی، دروازے پر ایسا آدمی کھڑا ہے جس کی دکھ بھری آواز آرہی ہے۔ وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی شکایت کرتا ہے اور ہمارے سامنے ایک بھوگا غمگین شکایت کرتا ہے۔ ہر آدمی اپنے عمل کے بدلے میں رہن رکھا گیا ہے اور بھلائیاں کرنے والاواضح ہوتا ہے۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: اے چچا زاد! تیرا حکم میرے نزدیک قابل اطاعت ہے، میرے نزدیک ملامت کا باعث اور بے وقعت نہیں۔ میں نے روٹی تیار کرنے میں دن صرف کردیا ہے، اسے کھلاؤ اس وقت مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ جب میں بھوکے کو سیر کروں گی تو میں نیک لوگوں اور جماعت کے ساتھ جاملوں گی، میں جنت میں داخل ہوجاؤں گی، میرے لیے شفاعت ہے۔
گھروالوں نے اسے کھانا کھلایا، خود اس دن اور رات بھوکے رہے، اس روز انہوں نے خالص پانی کے سوا کچھ نہ چکھا، جب دوسرا دن ہوا تو انہوں نے دوسرا صاع جو کا لیا، اسے پیسا اور اس سے روٹی پکائی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپ گھرآئے اور کھانا اپنے سامنے رکھا تو دروازے پر ایک یتیم آکھڑا ہوا اور اس نے کہا، السلام علیکم! حضرت محمد کے گھر والو۔ میں مہاجرین کی اولاد میں سے ایک یتیم ہوں میرا والد یوم عقبہ کو شہید ہوگیا مجھے کھانا کھلاؤ !اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کے دسترخوان سے کھانا کھلائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی آواز سنی اور شعر پڑھنا شروع کردیے۔اے سید کریم کی بیٹی! اے نبی کی بیٹی ! جو بےشان نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ایک یتیم کو لایا جو آج اس پر رحم کرے گا اس پر رحم کیا جائے گا۔ جنت میں کوئی بھی سلیم الفطرت داخل ہوجائے گا اور وہ جنت کمینے آدمی پر حرام کردی گئی ہے۔وہ پل صراط پر سے نہیں گزرے گا اور وہ جحیم تک آگ میں پھسلتا ہی جائے گا۔اس کا مشروب پیپ اور کھولتا ہوا پانی ہوگا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہنا شروع کردیا :آج اسے کھلاؤ اور مجھے کوئی پرواہ نہیں،اللہ تعالیٰ نے اسے ہماری اولاد پر ترجیح دی ہے۔انہوں نے بھوکے شام کی جب کہ وہ میرے شیر ہیں ان میں سب سے چھوٹا جنگ میں قتل کیا جاتا ہے۔ کربلا میں اسے دھوکے سے قتل کیا جائے گا۔ ہائے قاتل کے لیے عذاب کے ساتھ ہلاکت ہے۔آگ انہیں نیچے تک لے جائے گی اور اس کے ہاتھوں میں طوق اور بیڑیاں ہوں گی۔
انہوں نے اسے کھانا کھلادیا،خود دو دن اور دو راتیں ٹھہرے رہے انہوں نے خالص پانی کے سوا کچھ نہیں چکھا، جب تیسرادن تھا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے باقی ماندہ صاع لیا اور اس کو پیسا اس کی روٹیاں پکائیں۔ حضرت علی ر ضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھرگھرآئے ،کھانا ان کے سامنے رکھا گیا کہ ایک قیدی ان کے پاس آگیا وہ دروازے پر کھڑا ہوگیا اس نے کہا:اے محمد کے خاندان والو !تم ہمیں قیدی بناتے ہو ہمیں باندھتے ہو اور ہمیں کھانا نہیں کھلاتے مجھے کھانا کھلاؤ ،کیونکہ میں حضرت محمدﷺ کا قیدی ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی بات سنی تو آپ یہ اشعار پڑھنے لگے:اے فاطمہ، اے نبی احمد کی بیٹی، اے سردار نبی کی بیٹی! اللہ تعالیٰ نے ان کا نام رکھا پس وہ محمد ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت ہی حسین بنایا ہے۔یہ ہدایت یافتہ نبی کا قیدی ہے یہ اپنے طوق کے نیچے دبا جارہا ہے یہ بیڑیوں میں قید ہے۔ ہمارے سامنے طویل بھوک کی شکایت کرتا ہے جو آدمی آج کھلائے گا، کل اس پالے گا۔ اللہ تعالیٰ جو بلند شان والا یکتا ہے، جو اس کے ہاں نیکی کرے عنقریب اسے کاٹے گا۔ اسے عطا کیجیے۔ اسے رسوانہ کیجیے۔
حضرت فاطمہ نے یہ شعر پڑھنے شروع کردیے: جو وہ کھانا لائے اس میں سے صاع کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچا میری توہتھیلی بازو کے ساتھ جاتی رہی۔اللہ کی قسم! میرے دونوں بیٹے بھوکے ہیں اے میرے رب! ان دونوں کو ضائع نہ ہونے دے۔
ان دونوں کا والد نیکی کرنے والا ہے وہ شروع سے نیکی کرنے والا ہے۔وہ بھرے ہوئے مضبوط بازوؤں والاہے اور میرے سر پر اوڑھنی بھی نہیں، مگر ایسی اوڑھنی جو تسمہ کی طرح بن گئی ہو۔
انہوں نے اسے کھانا دیا اور تین دن اور تین راتیں خالص پانی کے سوا انہوں نے کسی چیز کو نہ چکھا جب چوتھا دن تھا جب کہ نذر پوری ہوچکی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دائیں ہاتھ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور بائیں ہاتھ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ بھوک کی شدت سے چوزوں کی طرح کا نپ رہے تھے جب رسول اللہ نے انہیں دیکھا تو فرمایا۔ اے ابوالحسن! میں تم میں جس حالت میں دیکھ رہا ہوں مجھے سخت تکلیف ہورہی ہے۔ ہمیں ہماری بیٹی کے پاس لے چلو وہ سب ان کی طرف گئے جبکہ وہ اپنی عبادت کی جگہ میں تھیں ان کا پیٹ ان کی پشت کے ساتھ لگا ہوا تھا جب رسول اللہ ﷺنے انہیں دیکھا اور ان کے چہرہ میں بھوک کے آثار کو دیکھا تو آپﷺ رو دیے فرمایا: اے اللہ !محمد کی گھر والے بھوک کی وجہ سے مرے جارہے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہنے لگے:اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتے ہیں۔ اپنے گھر والوں کے بارے میں مبارک باد قبول کیجیے۔آپ ﷺنے فرمایا: کیا قبول کروں؟ تو انہوں نے آپ ﷺ کو سورۂ دہر کی آیات’’ هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا‘‘ سے’’ويطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما وأسيرا. إنما نطعمكم لوجه الله لا نريد منكم جزاء ولا شكورا‘‘تک پڑھائی۔ (نوادر الاصول للحکیم الترمذی: 246/1، ط:دارالجیل)
تخریج:
۱۔اس روایت کوحکیم ترمذی (م320ھ)نے’’نوادر الأصول‘‘(246/1،ط:دارالجیل)میں ذکرکیا ہے۔
۲۔مفسر احمد بن ابراہیم ثعلبی (م327ھ)نے’’تفسیر الثعلبی‘‘(226/28،ط:دارالتفسیر )میں دو طرق(شعيب بن واقد، وروح بن عبادة کلاھما عن القاسم بن بهرام عن ليث عن مجاھد اور طريق أبي علي العنبري، عن محمد بن السائب الكلبي، عن أبي صالح) سے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے ۔
۳۔علامہ ابن الجوزی (م597ھ)نے’’الموضوعات‘‘(1/ 390 ،ط:المكتبة السلفية) میں أبو عبد الله السمرقندي، عن محمد بن كثير، عن الأصبغ کی طریق سےمرسلاً نقل کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
حکیم ترمذی اس روایت کو نقل کرنے سے پہلے فرماتے ہیں:’’وہ روایت جس پرمحققین کے دل نکیر کرتے ہیں‘‘۔ اور روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’ یہ حدیث من گھڑت ہے اس حدیث کو گھڑنے والے نے بڑی ذہانت سے کام لیا ہے یہاں تک کہ سننے والوں پر معاملہ مشتبہ ہوگیا اس روایت سے جاہل افسوس کرتے ہوئے ہونٹ کاٹتا ہے کہ وہ اس صفت پر کیوں نہیں، وہ نہیں جانتا کہ اس طرح کا عمل کرنے والاقابل مذمت ہے جب کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں :’’ اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ ( اللہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں ؟ آپ کہہ دیجیے کہ “ جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو ‘‘۔عفو سےمراد وہ زائد چیزیں ہیں جو اپنی اور اہل وعیال کی ضرورت سے زائد ہوں اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہترین صدقہ وہ ہے جو اپنے پیچھے غنا چھوڑ جائے اپنی ذات پر خرچ کرنا شروع کرو پھر ان پر خرچ کرو جو تیری زیرکفالت ہیں۔‘‘
علامہ ابن تیمیہ (م728ھ)فرماتے ہیں: اس حدیث کے من گھڑت ہونے پرمحدثین کرام کا اتفاق ہے،اسی وجہ سے یہ حدیث حدیث کی مراجع کتب، صحاح ، مسانید، جوامع، سنن اور فضائل میں سے کسی میں ذکر نہیں کی گئی ہے، حالانکہ فضائل کی کتب میں مصنفین تسامح سے کام لیتے ہوئے ضعیف روایات بھی ذکرکردیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس روایت کو ذکر نہیں کیا گیا۔
علامہ قرطبی (م671ھ) فرماتے ہیں: ’’نقاش، ثعلبی، قشیری اور دوسرے کئی مفسرین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی لونڈی کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے، جو صحیح اور ثابت نہیں‘‘۔۔۔اس قسم کی روایات جہلاء کے ہاں مشہور ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ بیدار دلوں کے بارے میں اس چیز کو ناپسند کرتا ہے کہ وہ حضرت علی کے بارے میں اس چیز کا گمان کریں۔ کاش میں یہ سمجھ سکتا کہ وہ کون تھا جس نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ سے ان اشعارکویاد رکھا اور دونوں نے جو ایک دوسرے کو جواب دیا اسے یاد رکھایہاں تک کہ اس نے ان راویوں تک ان کو پہنچایا۔۔۔ اس قسم کی گھڑی ہوئی روایات جب ماہرین تک پہنچتی ہیں تو وہ انہیں پھینک دیتے اور انہیں ناکارہ قرار دیتے ہیں، ہر چیز کی کوئی نہ کوئی آفت ہوتی ہے اور دین کی آفت اور مکر بہت بڑھ کر ہے۔
علامہ ابن الجوزی، علامہ سیوطی (م911ھ) اور علامہ ابن عراق کنانی(م963ھ) نے اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے۔
خلاصہ کلام:
سوال میں ذکرکردہ واقعہ من گھڑت ہے، لہذا اس کو بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
نوادر الاصول للحکیم الترمذي: (246/1، ط: دار الجیل)
ومن الحديث الذي تنكره القلوب:حديث رواه عن ليث، عن مجاهد، عن ابن عباس رضي الله عنهما في قوله تعالى: ’’يوفون بالنذر ويخافون يوما كان شره مستطيرا. ويطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما وأسيرا‘‘قال: مرض الحسن والحسين، فعادهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعادهما عمومة العرب، فقالوا: يا أبا الحسن! لو نذرت على ولديك نذرا، وكل نذر ليس له وفاء، فليس بشيء، فقال علي: إن برأ ولداي، صمت لله ثلاثة أيام شكرا، وقالت جارية لهم نوبية: إن برأ سيداي، صمت لله ثلاثة أيام شكرا، (وقالت فاطمة -رضي الله عنها- مثل ذلك)، فألبس الغلامان العافية، وليس عند آل محمد قليل، ولا كثير، فانطلق علي رضي الله عنه، إلى شمعون بن حاريا الخيبري، وكان يهوديا، فاقترض منه ثلاثة أصوع من شعير، فجاء به، فوضعه ناحية البيت.فقامت فاطمة -رضي الله عنها- إلى صاع، فطحنته واختبزته، وصلى علي مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم أتى المنزل، فوضع الطعام بين يديه، إذ أتاهم مسكين، فوقف بالباب فقال: السلام عليكم أهل بيت محمد، أطعموني أطعمكم الله على موائد الجنة، فسمعه علي رضي الله عنه، فأنشأ يقول:
أفاطم ذات السداد واليقين ... يا بنت خير الناس أجمعين.
أما ترين البائس المسكين ... قد قام بالباب له حنين..يشكو إلى الله ويستكين .
يشكو إلينا جائع حزين..كل امرئ بكسبه رهين ... من يفعل الخير يقم سمين..ويدخل الجنة أي حين
.فأنشأت فاطمة -رضي الله عنها- تقول:
أمرك سمع يا بن عم وطاعه ... ما بي من لؤم ولا وضاعه
عنيت في الخبز له صناعه ... سأطعمه لا أنهنهم ساعه
أرجو إن أشبعت من مجاعه ... أن ألحق الأخيار والجماعه
فأدخل الجنة لي شفاعه ...
فأعطوه الطعام، ومكثوا يومهم وليلتهم، ولم يذوقوا شيئا إلا الماء القراح.فلما كان في اليوم الثاني، قامت إلى صاع وطحنته واختبزته، وصلى علي رضي الله عنه مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم أتى المنزل، فوضع الطعام بين أيديهم، فوقف بالباب يتيم، فقال: السلام عليكم أهل بيت محمد، يتيم من أولاد المهاجرين، استشهد والدي يوم العقبة، أطعموني أطعمكم الله على موائد الجنة، فسمعه علي رضي الله عنه فأنشأ يقول:
أفاطم بنت السيد الكريم ... بنت نبي ليس بالزنيم
قد أتى الله بذا اليتيم ... من يرحم اليوم يكن رحيم
ويدخل الجنة أي سليم ... قد حرم الجنة اللئيم
ألا لا يجوز الصراط المستقيم ... يزل في النار إلى الجحيم
شرابه الصديد والحميم ... فأنشأت فاطمة -رضي الله عنها- تقول:
سأطعمه الآن ولا أبالي ... وأوثر الله على عيالي
أمسوا جياعا وهم أشبالي ... أصغرهما يقتل في القتال
بكربلاء يقتل باغتيال ... يا ويل للقاتل مع وبال
يهوي في النار إلى سفال ... وفي يديه غل من الأغلال
كبولة زادت على الأكبال ...
فأعطوه الطعام، ومكثوا يومين وليلتين لم يذوقوا شيئا إلا الماء القراح.فلما كان في اليوم الثالث: قامت إلى الصاع الباقي، فطحنته، واختبزته، وصلى علي رضي الله عنه مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم أتى المنزل، فوضع الطعام بين يديه، إذا أتاهم أسير، فوقف بالباب فقال: السلام عليكم أهل بيت محمد، تأسروننا، وتشدوننا، ولا تطعموننا؟! أطعموني؛ فإني أسير محمد، فسمع علي رضي الله عنه، فأنشأ يقول:
أفاطم بنت النبي أحمد ... بنت نبي سيد مسود
سماه الله فهو محمد ... قد زانه ربي بجيد أغيد
هذا أسير النبي المهتد ... مثقل في غله مقيد
يشكو إلينا الجوع قد تمدد ... من يطعم اليوم يجده من غد
عند العلي الواحد الموحد ... ما يزرع الزارع سوف يحصد
أعطيه لا تجعليه أنكد ...
فأنشأت فاطمة -رضي الله عنها- تقول:
لم يبق مما جئت غير صاع ... قد ذهبت كفي مع الذراع
ابني والله هما جياع ... يا رب لا تتركهما ضياع
أبوهما للخير ذو اصطناع ... يصطنع المعروف بابتداع
عبل الذراعين شديد الباع ... وما على رأسي من قناع
إلا قناعا نسجه أنساع ...
فأعطوه الطعام، ومكثوا ثلاثة أيام ولياليها لم يذوقوا شيئا إلا الماء القراح.فلما أن كان في اليوم الرابع: وقد قضى الله النذر، أخذ علي رضي الله عنه بيده اليمنى الحسن، وبيده اليسرى الحسين، وأقبل نحو رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهم يرتعشون كالفراخ من شدة الجوع، فلما أبصرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ((يا أبا الحسن! ما أشد ما يسوءني ما أرى بكم! انطلق بنا إلى ابنتي فاطمة))، فانطلقوا إليها، وهي في محرابها، قد لصق بطنها بظهرها، وغارت عيناها من شدة الجوع، فلما أن رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعرف المجاعة في وجهها، بكى، وقال: ((واغوثاه بالله! أهل بيت محمد يموتون جوعا، فهبط جبريل عليه السلام،فقال: السلام يقرئك السلام يا محمد، خذ هنيئا في أهل بيتك قال: وما آخذ يا جبريل؟ فأقرأه: {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئا مذكورا} إلى قوله: {ويطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما وأسيرا. إنما نطعمكم لوجه الله لا نريد منكم جزاء ولا شكورا}.
*قال الحكيم الترمذي:*هذا حديث مزوق، قد تطرق فيه صاحبه حتى شبه على المستضعفين، فالجاهل أبدا بهذا الحديث يعض شفتيه تلهفا، أن لا يكون بهذه الصفة، ولا يعلم أن صاحب هذا الفعل مذموم، وقد قال الله تعالى في تنزيله: {ويسئلونك ماذا ينفقون قل العفو}، وهو الفضل الذي يفضل عن نفسك وعيالك.وجرت الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم متواترة بأن: ((خير الصدقة ما كان عن ظهر غنى، وابدأ بنفسك ثم بمن تعول)).
ورواه الثعلبي في "التفسير"(226/28) من طريقي شعيب بن واقد، وروح بن عبادة، كلاهما عن القاسم ابن بهرام عن ليث، عن مجاهد به. ورواه أيضًا من طريق أبي علي العنبري، عن محمد بن السائب الكلبي، عن أبي صالح به.*و رواه ابن الجوزي في "الموضوعات" (1/ 390 )*من طريق أبي عبد الله السمرقندي، عن محمد بن كثير، عن الأصبغ به مرسلًا.
*وقال ابن تيمية في" منهاج السنة"(179/7):*أن هذا الحديث من الكذب الموضوع باتفاق أهل المعرفة بالحديث، الذي هم أئمة هذا الشأن وحكامه. وقول هؤلاء هو المنقول في هذا الباب، ولهذا لم يرو هذا الحديث في شيء من الكتب التي يرجع إليها في النقل ، لا في الصحاح، ولا في المسانيد ، ولا في الجوامع، ولا السنن ، ولا رواه المصنفون في الفضائل، وإن كانوا قد يتسامحون في رواية أحاديث ضعيفة.
وقال القرطبي في "الجامع لأحكام القرآن"(130/ 19): وقد ذكر النقاش، والثعلبي، والقشيري، وغير واحد من المفسرين في قصة على، وفاطمة، وجاريتها، حديثًا لا يصح ولا يثبت … ثم ذكره، وختمه بنقل كلام الحكيم الترمذي الذي سبق ذكره ثم قال: ومثل هذِه الأحاديث مفتعلة، فإذا صارت إلى الجهابذة رموا بها وزيفوها، وما من شيء إلا له آفة ومكيدة، وآفة الدين وكيده أكثر.ه
ولما أخرجه ابن الجوزي في كتابه "الموضوعات" قال:وهذا حديث لا يشك في وضعه ولو لم يدل على ذلك إلا الأشعار الركيكةوالأفعال التي يتنزه عنها أولئك السادة.وأقره السيوطي في " اللآلىء "(339/1)وابن عراق الكناني في"التنزيه"(362/1)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی