عنوان: شوہر کے شک اور ظلم کی بناء پر خلع لینا (15769-No)

سوال: مفتی صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ میری بہن کی شادی تقریبا نو سال پہلے ہوئی ہے، اس کا شوہر اس پر مسلسل شک کرتا ہے اور اس شخص کی وجہ سے بہن تین چار بار قرآن اٹھایا ہے۔ ان کا جوائنٹ سسٹم ہے اور گھر کے ہر مرد پر تقریباً اس نے شک کا اظہار کیا ہے۔ ان مردوں کو اس نے کچھ بھی نہیں کہا ہے، لیکن بیوی کو مسلسل مارتا پیٹتا ہے اور اسی طرح شک بھی کرتا ہے ۔ اتنا وہمی ہے کہ باہر کوئی آدمی کھڑا ہوا بھی ہو تو یہی کہتا ہے یہ کہ تیری وجہ سے کھڑا ہوا ہے۔ اس شک کی وجہ سے وہ نوکری پر بھی نہیں جاتا۔ ان آٹھ نو سالوں میں اس شخص نے کوئی تقریبا تین چار مہینے نوکری کی ہے اور اس کے بعد اس میں بھی وہ مسلسل چھٹیاں کرتا رہا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ کیا کیا جائے جو نہ کماتا ہے اور نہ نان نفقہ اپنے بچوں اور بیوی کا پورا کرتا ہے، کسی بھی قسم کا کچھ بھی لین دین نہیں کرتا اور مار پیٹ کرتا ہے اور ہر بات میں قرآن پاک اٹھاتا ہے۔ اس کے پاس کوئی گواہ ہوتے ہیں اور نہ کسی بات کو ثابت کر سکتا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ رہنا کیسا ہے؟

جواب: واضح رہے کہ میاں بیوی کے رشتے کی پائیداری اور تعلقات میں خوش گواری کا دار و مدار آپس کے اعتماد اور بھروسے پر قائم ہے، اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور بلاوجہ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی اور شک سے بچیں۔
گھریلو سکون اور خوشگوار ازدواجی زندگی کے بگاڑ کا ایک سبب میاں بیوی کا بلا وجہ ایک دوسرے کے کردار کے بارے میں شک اور بد گمانی کرنا ہے، اور بعض دفعہ اس شک کو دین کا نام دے کر شرعی احکام میں غلو کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ شک دین کا تقاضا نہیں ہوتا، بلکہ ان کی طبیعت اور مزاج کا حصہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔۔الخ"۔ (سورۃ الحجرات، آیت نمبر: 12) اور حدیث شریف میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد منقول ہے: "بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے"۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6066)
اس بدگمانی اور شکّی طبیعت کی بنا پر بعض اوقات میاں بیوی ایک دوسرے کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں، جس کا نتیجہ آپس کے الفت و محبت ختم ہونے، کدورتیں بڑھنے، گھر کے اجڑنے اور بعض دفعہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے، لہذا ایسے افراد کو چاہیے کہ اپنی شکّی طبیعت اور شکّی مزاج پر قابو پاتے ہوئے بلاوجہ ایک دوسرے پر شک و بدگمانی سے اجتناب کریں اور رشتہ ازداوج کو پائیدار رکھنے کے لیے ایک دوسرے پر اعتماد کریں، نیز میاں بیوی مزاجِ شریعت کے مطابق شرعی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ گھر کا سکون اور ازدواجی زندگی کی خوشگواری برقرار رہ سکے۔
پوچھی گئی صورت میں خاندان کے بزرگ اور ذی رائے افراد کو چاہیے کہ وہ معاملہ حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، لہٰذا اگر شوہر کے شک کا مسئلہ جوائنٹ فیملی کی وجہ سے ہو تو شوہر کو علحیدہ گھر میں منتقل ہونے کا مشورہ دیا جائے، لیکن اگر اس تدبیر سے بھی مسئلہ حل ہونے کی امید نہ ہو اور سمجھانے کے باوجود شوہر بیوی پر شک کرنے اور ظلم و زیادتی سے باز نہ آئے اور ظلم کی وجہ سے عورت اس کے ساتھ رہنا گوارہ نہ کرے تو پھر شوہر کو طلاق پر آمادہ کرنا چاہیے، اور اگر شوہر طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرلیں، لیکن اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع دینے پر رضامند ہو تو عورت عدالت سے تنسیخ نکاح کے لیے رجوع کرسکتی ہے۔
جس کی صورت یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے پیش کرے، اور متعلقہ جج شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ معاملہ کی پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہوجائے تو اس عورت کے شوہر سے کہا جائے گا کہ عورت کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ کسی صورت پرعمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو، عورت پر طلاق واقع کردے۔ شوہر اگر طلاق یا خلع پر راضی نہ ہو تو کسی مسلمان قاضی یا جج کے ذریعہ مذکورہ طریقے کے مطابق نکاح فسخ کروایا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 229)
وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا اِلاَّ اَنْ یَّخَافَا اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ، تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ، وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَo

الهداية: (261/2، ط: دار احياء التراث العربي)
وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به " لقوله تعالى: {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] " فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال.

الفتاوی الهندية: (488/1، ط: دار الفكر)
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال.

حیلة ناجزۃ: (ص: 73- 74، ط: دار الاشاعت)

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 381 Feb 29, 2024
shohar ke shak shaq or zulm ki bina per khula lena

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.