سوال:
براہِ کرم مختصر وضاحت کے ساتھ درج ذیل حدیث کی وضاحت فرمادیں:"حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں اللہ نے مجھے ایک فرمان کی وجہ سے نفع پہنچایا، جو میں نے رسول اکرم ﷺ سنا تھا، وہ یہ کہ جب رسول اکرم ﷺ کو خبر ملی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو سلطنت کی حکمرانی دے دی ہے تو رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو"۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:4425)
اس حدیث میں اس بات کی وضاحت درکار ہے کہ وہ نفع کیا تھا اور کیا قوم کی کامیابی یا ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ عورت حکومت نہیں کرسکتی، کیونکہ قوم تو ظالم، جاہل اور غیر منصف حکمران کی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
جواب: اسلام ایک فطری نظام حیات ہے، جس میں مرد اور عورت کے تخلیقی فرق کی رعایت رکھتے ہوئے ان کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کو الله رب العزت نے گھر کی زینت، امورِ خانہ داری کی اصلاح، اولاد کی صحیح پرورش اور دینی تربیت کی ذمہ داری ڈالی ہے، جبکہ مرد کو کسب معاش اور دیگر باہر کے امور کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، چونکہ حکمرانی اور سیاسی قیادت کرنے کا تعلق حقوق سے نہیں، بلکہ ان امور کا تعلق فرائض اور ذمہ داریوں سے ہے۔
شریعت مطہرہ نے جس طرح گھر کے اخراجات، نان و نفقہ کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی، اسی طرح قیادت اور حکمرانی کی بھاری ذمہ داری کا بوجھ بھی عورت کے ناتواں کندہوں پر نہیں ڈالا، بلکہ یہ ذمہ داری بھی مردوں کو تفویض کی گئی ہے، عورتوں پر ان کی طبعی اور فطری ذمہ داریوں سے زائد کسی اور ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالا گیا، نیز ملک وملت کی حکمرانی اور قیادت کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلنا، مختلف لوگوں سے ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا اور اسفار کرنے پڑتے ہیں، جبکہ عورت کو بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلنے کی تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے۔
لہذا قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں عورت کو خود مختار حاکم بنانا شرعاً جائز نہیں ہے، تاہم عورت چونکہ مشورہ کی اہل ہے، اس لئے شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے عورت کو مجلس شوری کا ممبر اور رکن بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ حدیث سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنے ملک کی سربراہی اور حکمرانی کا مکمل اختیار کسی عورت کے سپرد کریں گے تو وہ فلاح سے محروم ہونگے، لیکن واضح رہے کہ فلاح کا تعلق صرف ظاہری ترقی اور نام و نمود سے نہیں ہے، بلکہ اخلاقی، روحانی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کو "فلاح" کہا جاتا ہے، نیز یہ عدم فلاح ظلم و جبر اور ناانصافی وغیرہ کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس حدیث میں عورت کی حکمرانی کو اس کا ایک سبب قرار دیا گیا ہے۔
جہاں تک زیر نظر حدیث میں صحابی کے قول کا تعلق ہے کہ "مجھے اس حدیث نے فائدہ پہنچایا" تو یہ پوری حدیث امام ترمذی نے اپنی مشہور کتاب سنن ترمذی میں اس طرح نقل کی ہے:
حدثنا محمد بن المثنی حدثنا خالد بن الحارث حدثنا حمید الطویل عن الحسن عن أبی بکرۃ قال: عصمنی الله بشیء سمعته من رسول الله صلی الله علیه وسلم لما هلك کسری، قال: من استخلفوا قالوا: ابنته، فقال النبی صلی الله علیه وسلم: "لن یفلح قوم ولوا أمرهم امرأۃ"، قال: فلما قدمت عائشة یعنی البصرة ذکرت قول رسول اللہ صلی الله علیه وسلم فعصمنی الله به۔
قال أبوعیسی هذا حدیث حسن صحیح۔
(سنن الترمذی: كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحدیث: 2262)
ترجمہ:
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (جنگِ جمل کے دن) مجھ کو اس بات کی وجہ سے بچایا جو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، وہ بات یہ تھی کہ جب کسرٰی ہلاک ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایران والوں نے کس کو حکمران بنایا؟ صحابہؓ نے عرض کیا کسرٰی کی بیٹی کو خلیفہ و حکمران بنایا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ قوم کبھی فلاح نہ پائے گی جس نے ملک کے امور کا حاکم اور والی کسی عورت کو بنایا ہو“ تو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بصرہ تشریف لے آئیں تو مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان "لن یفلح قوم الخ" یاد آیا اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا (اور میں جمل والوں کے ساتھ شر یک نہ ہوا)۔
امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘
اس واقعہ میں امامت یا خلافت کی کوئی بات نہیں تھی، بلکہ ایک تحریک (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص) کی سرپرستی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کبھی اس موقع پر امامت یا خلافت کا دعوی نہیں کیا تھا، لیکن چونکہ ظاہری طور پر دیکھنے میں امامت اور سربراہی کی صورت نظر آرہی تھی، اس وجہ سے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو وہ حدیث یاد آگئی، اور غایت احتیاط کی بناء پر ایسی تحریک کا حصہ نہیں بنے، جس کی سربراہی ایک خاتون (ام المومین رضی اللہ عنہا) کے پاس تھی، اس طرح سے اس حدیث کی برکت سے وہ مسلمانوں کے درمیان آپس میں اختلاف اور جنگ و جدال سے محفوظ رہے، لہذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ سے عورت کی حکمرانی پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسیر ابن کثیر: (النساء، الآية: 34)
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء أی الرجل قَیّم علی المرأۃ أی هو رئیسہا وکبیرها والحاکم علیہا ومؤدبہا إذا اعوجَّت بِمَا فَضَّلَ اللَّہُ بَعضَہُم عَلَی بَعضٍ أی لأن الرجال أفضل من النساء والرجل خیر من المرأۃ؛ ولہذَا کانت النبوۃ مختصة بالرجال وکذلك المُلك الأعظم؛ لقوله صلی اللہ علیه وسلم: لن یُفلِح قومٌ وَلَّوا أمرَہُم امرأۃ
سنن الترمذى: (كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحديث: 2266)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ شُورَى بَيْنَكُمْ فَظَهْرُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا وَإِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ شِرَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ بُخَلاَءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا "
مسند أحمد: (رقم الحديث: 20402)
لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ أَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَى امْرَأَةٍ
شرح السنة للبغوی: (باب کراھیة تولیة النساء، 77/10، ط. دار الحدیث، قاهرة)
اتفقوا علی ان المراۃ لا تصلح ان تکون امامًا لان الامام یحتاج الی الخروج لاقامة امر الجهاد والقیام بأمر المسلمین ۔۔۔ والمرأۃ عورۃ لا تصلح المبروز
احكام القرآن لابن العربي: (النمل، ط: دار الكتب العلمية)
[مسألة المرأة لا تكون خليفة]
المسألة الثالثة: روي في الصحيح «عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال حين بلغه أن كسرى لما مات ولى قومه بنته: لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة».
وهذا نص في أن المرأة لا تكون خليفة، ولا خلاف فيه.
الدر المختار مع رد المحتار: (مطلب شروط الإمامة الكبرى، 548/1، ط: سعید)
ویشترط کونه مسلمًا حرا ذکرًا عاقلاً بالغًا۔.........
لان النساء امرن بالقرار فی البیوت فکان مبنی حالہن علی الستر، ولیه اشار النبی صلی اللّٰه علیه وسلم حیث قال کیف یفلح قوم تملکہم امرءۃ۔
شرح الكبير علي المقنع: (كتاب القضاء، 28/299، ط: هجر للطباعة و النشر و التوزيع و الإعلان، القاهرة)
ولا تصلح للامامة العظمى، ولا لتولية البلدان، ولهذا لم يول النبي - صلى الله عليه وسلم -، ولا أحد من خلفائه، ولا من بعدهم، امرأة قضاء ولا ولاية بلد، فيما بلغنا، ولو جاز ذلك لم يخل منه جميع الزمان غالبا. الخامس، الحرية، فلا تصح تولية العبد؛ لأنه منقوص برقه، مشغول بحقوق سيده، لا تقبل شهادته في جميع الأشياء، فلم يكن أهلا للقضاء، كالمرأة.
الاحكام السلطانية للماوردی: (ص: 28-27، ط: دار الفکر)
فصل واما وزارۃ التنفیذ فحکمھا اضعف و شروطھا اقل ۔۔ الخ۔ ولا یجوز ان تقوم بذلك امراۃ وان کان خبرھا مقبولا لما تضمنه معنی الولایات المعروفة عن النساء لقول النبی صلی اللہ علیه وسلم ’’ما افلح قوم اسندوا امرھم الی امراۃ ‘‘ ولان فیھا من طلب الرأی و ثبات العزم ما تضعف عن النساء و من الظھور عن مباشرۃ الامورھا ھو علیھن محظور۔
مراتب الإجماع لابن حزم: (ص: 126، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
و اتفقوا أن الإمامة لاتجوز لامرأة."
اسلام اور سیاسی نظریات، تالیف: مفتی محمد تقی العثمانی: (ص: 12-210، ط: مکتبه معارف القرآن کراچی)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی