سوال:
ایک شخص کو مستقل طور پر مختلف ایام میں خون چڑھانا پڑتا ہے، پہلے انجکشن کے ذریعہ خون نکالا جاتا ہے اس کے بعد دوسری سوئی اور بوتل کے ذریعہ خون چڑھانے کا عمل شروع ہوتا ہے اور اس میں پانچ چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ اس میں وضو کا کیا حکم ہوگا؟ اگر پہلے انجکشن سے خون نکالنے کے بعد وضو کرلیں تو کیا خون چڑھانے کے عمل سے وضو باقی رہے گا؟
جواب: اصولی طور پر یہ بات واضح رہے کہ خون نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے، جبکہ انجکشن یا خون چڑھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ نیز واضح رہے کہ وہ انجکشن اور خون کی بوتل جو رگ میں لگائی جاتی ہے، اور یہ دیکھنے کے لیے کہ سوئی رگ میں چلی گئی ہے یا نہیں، تھوڑا سا خون نکلنے تک انتظار کیاجاتا ہے، اگر انجکشن یا سوئی میں خون آجائے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ سوئی رگ میں پہنچ گئی ہے، ایسی صورت میں چونکہ جسم سے کچھ خون نکلتا ہے، اس لیے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں خون کی بوتل لگاتے وقت خون کا باہر کی طرف انجکشن یا سوئی میں آنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ تاہم اگر یہ بوتل پہلے سے لگے ہوئے کینولا (Cannula) میں لگائی جائے اور بوتل لگاتے وقت بالکل بھی خون باہر نہ آئے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الهندية: (10/1، ط: دار الفكر)
«(ومنها) ما يخرج من غير السبيلين ويسيل إلى ما يظهر من الدم والقيح والصديد والماء لعلة وحد السيلان أن يعلو فينحدر عن رأس الجرح. كذا في محيط السرخسي وهو الأصح. كذا في النهر الفائق. الدم إذا علا على رأس الجرح لا ينقض الوضوء وإن أخذ أكثر من رأس الجرح. كذا في الظهيرية والفتوى على أنه لا ينقض وضوءه في جنس هذه المسائل. كذا في المحيط»
رد المحتار: (134/1، ط: دار الفكر)
«أقول: يرد عليه ما لو سال إلى نهر ونحوه مما لا يصلى عليه، وما لو مص العلق أو القراد الكبير وامتلأ دما فإنه ناقض كما سيأتي متنا فالأحسن ما في النهر عن بعض المتأخرين من أن المراد السيلان ولو بالقوة: أي فإن دم الفصد ونحوه سائل إلى ما يلحقه حكم التطهير حكما، تأمل»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی