سوال:
مفتی صاحب! ایک واقعے کے بارے میں رہنمائی درکار ہے۔ علماء کرام سے سنتے آرہے ہیں کہ نماز میں سجدے کی حالت میں نبی کریم ﷺ کی مبارک کمر پر اوجھڑی رکھ دی جاتی تھی۔ کیا یہ واقعہ صحیح ہیں؟ کیا اس کو بیان کر سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: سوال میں جس واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا ہے، یہ واقعہ صحیح ہے اور صحیح بخاری شریف اور صحیح مسلم شریف میں موجود ہے، لہذا اس کو بیان کیا جاسکتا ہے، ذیل میں اس روایت کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے:
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ جناب رسول اللہ ﷺ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر) جب محمد ﷺ سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ ﷺ سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ ﷺ نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ ﷺ نے انہیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے (ان میں سے) ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے (بددعا کرتے وقت) آپ ﷺ نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔(بخاری ،حدیث نمبر:240)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 240، 57/1، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا عبدان قال: أخبرني أبي، عن شعبة، عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ساجد (ح).قال: وحدثني أحمد بن عثمان قال: حدثنا شريح بن مسلمة قال: حدثنا إبراهيم بن يوسف، عن أبيه، عن أبي إسحاق قال: حدثني عمرو بن ميمون: أن عبد الله بن مسعود حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي عند البيت، وأبو جهل وأصحاب له جلوس، إذ قال بعضهم لبعض: أيكم يجيء بسلى جزور بني فلان، فيضعه على ظهر محمد إذا سجد؟ فانبعث أشقى القوم، فجاء به، فنظر حتى سجد النبي صلى الله عليه وسلم، وضعه على ظهره بين كتفيه، وأنا أنظر لا أغير شيئا، لو كان لي منعة. قال: فجعلوا يضحكون ويحيل بعضهم على بعض، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ساجد لا يرفع رأسه، حتى جاءته فاطمة، فطرحت عن ظهره، فرفع رأسه ثم قال: اللهم عليك بقريش. ثلاث مرات، فشق عليهم إذ دعا عليهم، قال: وكانوا يرون أن الدعوة في ذلك البلد مستجابة، ثم سمى: اللهم عليك بأبي جهل، وعليك بعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وأمية بن خلف، وعقبة بن أبي معيط. وعد السابع، فلم يحفظه، قال: فوالذي نفسي بيده، لقد رأيت الذين عد رسول الله صلى الله عليه وسلم صرعى في القليب قليب بدر».
والله تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی