عنوان: میز اور کرسی پر کھانا کھانے کا حکم(158-No)

سوال: حضرت ! میز اور کرسی وغیرہ پر کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: میز یا ٹیبل پر کهانا فی نفسہٖ جائز ہے، شرعا ممنوع نہیں ہے، اسی طرح ٹیبل وغیرہ پر کهانا خلافِ سنت بهی نہیں ہے، کیونکہ خلافِ سنت اس عمل کو کہا جاتا ہے، جو خلافِ سنت ہونے کی بناء پر قابل نکیر ہو اور اس معانی میں خلافِ سنت اس عمل کو کہا جائے گا، جو سنن مؤکدہ کے ترک پر مشتمل ہو، یعنی وہ افعال جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کے طور پر کیے ہیں اور ان پر مواظبت فرمائی ہے، ان کو چهوڑ کر ان کے خلاف کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا منکر ہے، لہذا وہ خلافِ سنت کہلائے گا، لیکن سنن غیر مؤکدہ یعنی وہ افعال جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کے طور پر نہیں کیے، بلکہ عادتاً کیے ہیں تو ایسی سنتوں پر بنیت اتباع عمل کرنا بےشک باعثِ ثواب ہے، لیکن ان کا چھوڑنا شرعاً موجبِ کراہت اور قابلِ ملامت نہیں۔
اس لیے ان کے بجائے اگر کوئی اور مباح طریقہ اختیار کیا جائے تو وہ خلافِ سنت نہیں کہلائے گا، دستر خوان بچها کر کهانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سننِ عادیہ میں سے ہے، اس لیے دستر خوان بچها کر زمین پر بیٹھ کر کهانا سنت کے قریب اور باعثِ برکت و سعادت ہے، عام حالات میں بلا عذر اس کو چهوڑنا نہیں چاہیے، لیکن کسی وجہ سے اس طریقہ کو چهوڑ کر کوئی دوسرا مباح طریقہ اختیار کر لیا جائے تو اس کو بھی ناجائز یا مکروہ نہیں کہا جائے گا، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز کو استعمال نہ کرنا اس کے حرام یا مکروہ ہونے کی دلیل نہیں، جبکہ کوئی دلیل شرعی منع کی موجود نہ ہو، مثلاً: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چپاتی تناول نہیں فرمائی، مگر چپاتی کے استعمال کو ممنوع یا خلافِ سنت نہیں کہا جاسکتا، اسی طرح میز ٹیبل پر کهانے کو خلافِ سنت یا مکروہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی مناسب ہے کہ میز یا ٹیبل پر کهانے کے بارے میں عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے، اس میں کفار وفساق کے ساتھ تشبہ پایا جاتا ہے، لیکن یہ بات اس وقت تو درست تھی، جب کهانے کے لیے ٹیبل کا استعمال یہود و نصاریٰ کے ساتھ مخصوص تها، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر کے فتاویٰ میں میز وغیرہ کا استعمال ممنوع لکھا ہے، لیکن اب ہمارے زمانے میں اس کا رواج مسلمانوں میں بھی اس قدر عام ہوگیا ہے کہ اب یہ کسی قوم یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں رہا، اس لیے اب اس کو تشبہ
کی وجہ سے ممنوع نہیں کہہ سکتے، بالخصوص جبکہ میز وغیرہ کے استعمال میں غیروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا مقصود بهی نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (70/7، ط: دار طوق النجاۃ)
عن قتادة، عن أنس رضي الله عنه، قال: «ما علمت النبي صلى الله عليه وسلم أكل على سكرجة قط، ولا خبز له مرقق قط، ولا أكل على خوان قط» قيل لقتادة: فعلام كانوا يأكلون؟ قال: «على السفر»

عمدۃ القاری: (35/21، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقال ابن بطال: أكل المرقق جائز مباح ولم يتركه سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا زهدا في الدنيا وتركا للتنعم وإيثارا لما عند الله وغير ذلك، وكذلك الأكل على الخوان، وليس نفي أنس، رضي الله تعالى عنه، أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يأكل على كل خوان، ولا أنه أكل شاة سميطا يرد قول من روى أنه صلى الله عليه وسلم، أكل على خوان وأنه أكل شواء، وإنما أخبر كل بما علم

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (265/25، ط: دار السلاسل)
فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان:
أ - سنة الهدى:
وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.
ب - سنن الزوائد:
وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3062 Dec 26, 2018
maze or kursi par khana khany /khane ka hukum/hukm, Ruling on eating at the table and chair

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Halaal & Haram In Eatables

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.