سوال:
حضرت ! میز اور کرسی وغیرہ پر کھانا کھا سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: میز یا ٹیبل پر کھانا فی نفسہٖ جائز ہے، شرعا ممنوع نہیں ہے، اسی طرح ٹیبل وغیرہ پر کھاناخلافِ سنت بهی نہیں ہے، کیونکہ خلافِ سنت اس عمل کو کہا جاتا ہے، جو خلافِ سنت ہونے کی بناء پر قابل نکیر ہو اور اس معانی میں خلافِ سنت اس عمل کو کہا جائے گا، جو سنن مؤکدہ کے ترک پر مشتمل ہو، یعنی وہ افعال جو حضور اکرم ﷺ نے عبادت کے طور پر کیے ہیں اور ان پر مواظبت فرمائی ہے، ان کو چھوڑ کر ان کے خلاف کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا منکر ہے، لہذا وہ خلافِ سنت کہلائے گا، لیکن سنن غیر مؤکدہ یعنی وہ افعال جو حضور ﷺ نے عبادت کے طور پر نہیں کیے، بلکہ عادتاً کیے ہیں تو ایسی سنتوں پر بنیت اتباع عمل کرنا بےشک باعثِ ثواب ہے، لیکن ان کا چھوڑنا شرعاً موجبِ کراہت اور قابلِ ملامت نہیں۔
اس لیے ان کے بجائے اگر کوئی اور مباح طریقہ اختیار کیا جائے تو وہ خلافِ سنت نہیں کہلائے گا، دستر خوان بچھا کر کھانا حضور اکرمﷺ کی سننِ عادیہ میں سے ہے، اس لیے دستر خوان بچھا کر زمین پر بیٹھ کر کھانا سنت کے قریب اور باعثِ برکت و سعادت ہے، عام حالات میں بلا عذر اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے، لیکن کسی وجہ سے اس طریقہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مباح طریقہ اختیار کر لیا جائے تو اس کو بھی ناجائز یا مکروہ نہیں کہا جائے گا، کیونکہ حضور اکرمﷺ کا کسی چیز کو استعمال نہ کرنا اس کے حرام یا مکروہ ہونے کی دلیل نہیں، جبکہ کوئی دلیل شرعی منع کی موجود نہ ہو، مثلاً: آنحضرت ﷺ نے کبھی چپاتی تناول نہیں فرمائی، مگر چپاتی کے استعمال کو ممنوع یا خلافِ سنت نہیں کہا جاسکتا، اسی طرح میز ٹیبل پر کھانے کو خلافِ سنت یا مکروہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی مناسب ہے کہ میز یا ٹیبل پر کھانے کے بارے میں عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے، اس میں کفار وفساق کے ساتھ تشبہ پایا جاتا ہے، لیکن یہ بات اس وقت تو درست تھی، جب کھانے کے لیے ٹیبل کا استعمال یہود و نصاریٰ کے ساتھ مخصوص تھا، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر کے فتاویٰ میں میز وغیرہ کا استعمال ممنوع لکھا ہے، لیکن اب ہمارے زمانے میں اس کا رواج مسلمانوں میں بھی اس قدر عام ہوگیا ہے کہ اب یہ کسی قوم یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں رہا، اس لیے اب اس کو تشبہ کی وجہ سے ممنوع نہیں کہہ سکتے، بالخصوص جبکہ میز وغیرہ کے استعمال میں غیروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا مقصود بھی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (70/7، ط: دار طوق النجاۃ)
عن قتادة، عن أنس رضي الله عنه، قال: «ما علمت النبي صلى الله عليه وسلم أكل على سكرجة قط، ولا خبز له مرقق قط، ولا أكل على خوان قط» قيل لقتادة: فعلام كانوا يأكلون؟ قال: «على السفر»
عمدۃ القاری: (35/21، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقال ابن بطال: أكل المرقق جائز مباح ولم يتركه سيدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا زهدا في الدنيا وتركا للتنعم وإيثارا لما عند الله وغير ذلك، وكذلك الأكل على الخوان، وليس نفي أنس، رضي الله تعالى عنه، أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يأكل على كل خوان، ولا أنه أكل شاة سميطا يرد قول من روى أنه صلى الله عليه وسلم، أكل على خوان وأنه أكل شواء، وإنما أخبر كل بما علم
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (265/25، ط: دار السلاسل)
فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان:
أ - سنة الهدى:
وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.
ب - سنن الزوائد:
وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی