سوال:
امام صاحب نے آیت (ولاتاكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها الى الحكام لتاكلوا فريقا من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون) میں غلطی سے اس طرح پڑھا (لتحکموا من اموال الناس وانتم تعلمون) کیا نماز صحیح ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر امام نماز میں تلاوت کے دوران غلطی سے ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ لے، جس کی وجہ سے آیت کے معنی میں شدید بگاڑ پیدا ہوجائے تو اس سے نماز فاسد ہو جائے گی، البتہ اگر ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھنے سے محض لفظی طور پر بگاڑ پیدا ہو جائے، لیکن معنی کے اعتبار سے شدید بگاڑ پیدا نہ ہو، بلکہ اس کی توجیہ ممکن ہو تو اس صورت میں نماز واجب الاعادہ نہیں ہوگی۔
پوچھی گئی صورت میں امام کے "لتأكلوا" کی جگہ "لتحکموا" پڑھ لینے کی وجہ سے اگرچہ کلمہ تبدیل ہوگیا ہے، لیکن معنی میں شدید بگاڑ نہیں آیا ہے، کیونکہ آیت کا ترجمہ ہے کہ: " اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس سے غرض سے لے جاؤ ( لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ ) کہ لوگوں کے مال کا کوئی حصہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔
"لتحکموا" پڑھنے کی صورت میں آیت کا معنی ہوگا: "اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس سے غرض سے لے جاؤ کہ تم جانتے بوجھتے لوگوں کے مال کے بارے میں فیصلہ کرو" ( یعنی حاکموں سے ناحق فیصلہ کرکے لوگوں کے مال کو کھا جاؤ)، لہذا معنی میں شدید بگاڑ پیدا نہ ہونے کی وجہ سے نماز درست ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (630/1، ط: دار الفکر)
إن الخطأ إما في الإعراب أي الحركات والسكون ويدخل فيه تخفيف المشدد وقصر الممدود وعكسهما أو في الحروف بوضع حرف مكان آخر، أو زيادته أو نقصه أو تقديمه أو تأخيره أو في الكلمات أو في الجمل كذلك أو في الوقف ومقابله. والقاعدة عند المتقدمين أن ما غير المعنى تغييرا يكون اعتقاده كفرا يفسد في جميع ذلك، سواء كان في القرآن أو لا إلا ما كان من تبديل الجمل مفصولا بوقف تام وإن لم يكن التغيير كذلك، فإن لم يكن مثله في القرآن والمعنى بعيد متغير تغيرا فاحشا يفسد أيضا كهذا الغبار مكان هذا الغراب.
وكذا إذا لم يكن مثله في القرآن ولا معنى له كالسرائل باللام مكان السرائر، وإن كان مثله في القرآن والمعنى بعيد ولم يكن متغيرا فاحشا تفسد أيضا عند أبي حنيفة ومحمد، وهو الأحوط. وقال بعض المشايخ: لا تفسد لعموم البلوى، وهو قول أبي يوسف وإن لم يكن مثله في القرآن ولكن لم يتغير به المعنى نحو قيامين مكان قوامين فالخلاف على العكس فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغير المعنى كثيرا وجود المثل في القرآن عنده والموافقة في المعنى عندهما، فهذه قواعد الأئمة المتقدمين. وأما المتأخرون كابن مقاتل وابن سلام وإسماعيل الزاهد وأبي بكر البلخي والهندواني وابن الفضل والحلواني، فاتفقوا على أن الخطأ في الإعراب لا يفسد مطلقا ولو اعتقاده كفرا لأن أكثر الناس لا يميزون بين وجوه الإعراب. قال قاضي خان: وما قال المتأخرون أوسع، وما قاله المتقدمون أحوط
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی