عنوان: مسجد میں سوال کرنا/ بھیک مانگنا اور اس کی مدد کرنے کا حکم (15811-No)

سوال: مفتی صاحب ! نماز کے بعد کوئی نہ کوئی سائل کھڑے ہو کر بھیک مانگنا شروع کردیتا ہے۔ کیا ایسے شخص کی مالی مدد کرنی چاہیے اور کیا ایسے شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا دی ہے؟

جواب: 1) واضح رہے کہ بلا ضرورت سوال کرنا ناجائز اور حرام ہے، چاہے مسجد میں ہو یا مسجد کےباہر ہو، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا، اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا، پس ایسے شخص کو بھیک دینا مکروہ ہے، چاہے مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو۔
اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو اور اس کے پاس ایک دن کے بقدر ضرورت کا راشن موجود نہ ہو تو اس کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرنے کی گنجائش ہے:
(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔
(2) بھیک مانگتے وقت کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً: گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے۔
البتہ بہتر یہی ہے کہ یہ شخص مسجد کے باہر سوال کرے۔
ایسے مجبور شخص کو مسجد میں پیسے دینا اگرچہ گناہ تو نہیں، پھر بھی بہتر یہی ہے کہ پیسے مسجد سے باہر جا کر دے۔
2) حدیث مبارکہ میں مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرنے پر بد دعا کرکے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، وہ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
اخبرني ابو عبد الله مولى شداد انه سمع ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل: لا اداها الله إليك، فإن المساجد لم تبن لهذا".
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو شخص کسی کو مسجد میں گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنے تو وہ کہے: اللہ تجھے (اس گمشدہ چیز کو) واپس نہ لوٹائے، کیونکہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں". (سنن ابی داود: حدیث نمبر 473)
چونکہ اس سے مسجد کی تعظیم کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اس لئے ایسے شخص کیلئے ایک طرح سے ڈانٹ ڈپٹ کا انداز ہے، تاکہ آئندہ لوگ ایسا کام نہ کریں، جس سے مسجد کی تعظیم اور احترام پامال ہوتا ہو، اور اس ڈانٹنے کی علت اور وجہ بھی ساتھ ہی ارشاد فرمادی گئی ہے کہ "مساجد اس کام لئے تو نہیں بنائی گئیں" یعنی مساجد کو اللہ کے ذکر ، نماز اور نیکی کی باتوں وغیرہ کیلئے بنایا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن ابی داؤد: (باب من یعطی من الصدقۃ، و حد الغنی، 189/2، ط: دار ابن حزم)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ فِي وَجْهِهِ ۔

الدر المختار مع رد المحتار: (باب الجمعۃ، مطلب في الصدقۃ علی سوال المسجد، 42/3، ط: دار عالم الکتب)
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال".
(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اه ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اه. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم"

و فیہ ایضا: (باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، 433/2، ط: دار عالم الکتب)
’’ویحرم فیہ السوال و یکرہ الاعطاء مطلقا‘‘


سنن ابي داود: (باب فِي كَرَاهِيَةِ إِنْشَادِ الضَّالَّةِ فِي الْمَسْجِدِ، رقم الحدیث:473)
حدثنا عبيد الله بن عمر الجشمي، حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة يعني ابن شريح، قال: سمعت ابا الاسود يعني محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، يقول: اخبرني ابو عبد الله مولى شداد، انه سمع ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل: لا اداها الله إليك، فإن المساجد لم تبن لهذا".

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 92 Apr 15, 2024
masjid me sawal karna/bheek mangna or us ki madad karne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Rights & Etiquette of Mosques

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.