سوال:
کیا نبی کریم ﷺ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ چہرے اور پنڈلیوں پر پھیرتے تھے؟
جواب: واضح رہے کہ کھانے کى چیز میں اگر چکناہٹ ہو اور کھانے کے دوران وہ ہاتھوں کو لگ جائے تو کھانے کے بعد اس چکناہٹ کو صاف کرنے کے لیے ہاتھوں کو دھونا مسنون ہے، آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى اس سلسلے میں تعلیمات یہ ہیں کہ کھانے کى برکت یہ ہے کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کو دھویا جائے۔
حضرت سلمان فارسى رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: "کھانے کى برکت یہ ہے کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کو دھویا جائے"۔
(سنن ترمذى: حدیث نمبر: 1846)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص اس حالت میں سو گیا کہ اس کے ہاتھ میں گوشت کى چکناہٹ لگى ہوئى ہے اور اس نے اسے دھویا نہیں ہے، پھر کوئى مضر چیز مثلا: کیڑے مکوڑے نے اسے نقصان پہنچا دیا تو وہ صرف اپنے آپ کو ہى ملامت کرے" (سنن ابو داود: حدیث نمبر: 3852)
مذکورہ بالا احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھوں کى چکناہٹ کو دور کرنے کے لیے انہیں دھونے کا حکم دیا گیا ہے، بلکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کو باعث برکت قرار دیا ہے۔
لہذا کھانے کے بعد ہاتھوں کو چہرے، بازوؤں اور پاؤں پر پھیرنا آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
ہاں! البتہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس طرح کا عمل ان کے فقر و تنگدستی کی وجہ سے ثابت ہے، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروى ہے: ان سے آگ پر پکى ہوئے کھانے سے متعلق دریافت کیا گیا کہ آیا اس کے بعد وضو کیا جائے گا؟ تو انہوں نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کا کھانا کم ہى میسر آتا تھا، لہذا جب ہمیں ایسا کھانا میسر آتا تھا، تو ہمارے پاس ہاتھوں کو پونچھنے کے لیے کوئى رومال وغیرہ تو ہوتا نہیں تھا، چنانچہ ہمارے بازو اور ہمارے پاؤں ہى ہمارے لیے رومال کا کام دیتے تھے، ہم اس چکناہٹ کو ہاتھوں اور پاؤں پر مل کر صاف کر کے نماز پڑھ لیا کرتے تھے اور وضو نہیں کرتے تھے (یعنی ہاتھ نہیں دھوتے)۔ (صحیح بخارى: حدیث نمبر: 5457)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام فقر وتنگدستى کى وجہ سے کھانے کى چکناہٹ کو بازوؤں اور پاؤں پر صاف کر لیا کرتے تھے، لیکن یہ عمل آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
نیز واضح رہے کہ اس سلسلے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ "آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ہاتھ پونچھنے کا رومال
آپ کے قدموں کے تلوے تھے" اس حدیث کے متعلق حافظ عراقی رحمہ اللّٰہ (م806ھ) نے اپنی کتاب "تخریج أحاديث الإحياء" 3/ 1396 (2112)، ط: دار العاصمة، میں فرمایا ہے: میں نہیں جانتا کہ اس حدیث کو کس نے گھڑا ہے اور اسی طرح علامہ تاج الدین السبکی رحمہ اللّٰہ (م771ھ) نے فرمایا ہے: اس حدیث کی مجھے کوئی سند نہیں ملی ہے۔
لہذا آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف ایسی حدیث کی نسبت کرنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (كتاب الأطعمة، باب المنديل، رقم الحديث: 5457، 82/7، ط: دار طوق النجاة)
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما: أنه سأله عن الوضوء مما مست النار، فقال: لا، قد كنا زمان النبي صلى الله عليه وسلم لا نجد مثل ذلك من الطعام إلا قليلا، فإذا نحن وجدناه لم يكن لنا مناديل إلا أكفنا وسواعدنا وأقدامنا، ثم نصلي ولا نتوضأ.
سنن الترمذي: (باب ما جافي الوضوء قبل الطعام وبعده، رقم الحديث: 1846، 425/3، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن سلمان قال: قرأت في التوراة أن بركة الطعام الوضوء بعده، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته بما قرأت في التوراة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "بركة الطعام الوضوء قبله والوضوء بعده".
وقال الترمذي :وفي الباب عن أنس، وأبي هريرة. لا نعرف هذا الحديث إلا من حديث قيس بن الربيع، وقيس بن الربيع يضعف في الحديث.أبو هاشم الرماني اسمه: يحيى بن دينار
قوت المغتذي على جامع الترمذي: (457/1)
"بركة الطعام الوضوء قبله، والوضوء بعده".المراد به: الوضوء اللغوي، وهو غسل اليدين، والمراد بالبركة: حصول الزيادة فيه أو نفع البدن به.
سنن أبي داود: (كتاب الأطعمة، باب في غسل اليد من الطعام، رقم الحديث: 3852، 660/5، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا سهيل بن أبي صالح، عن أبيه عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من نام وفي يده غمر، ولم يغسله، فأصابه شيء، فلا يلومن إلا نفسه".
تخريج أحاديث إحياء علوم الدين: (رقم الحديث: 2112، 1396/3، ط: دار العاصمة)
" كان منديله باطن قدمه". قال العراقي: لا أعرفه من فعله وإنما المعروف فيه ما رواه ابن ماجه من حديث جابر كنا زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم قليلا ما نجد الطعام فإذا وجدناه لم تكن لنا مناديل إلا أكفنا وسواعدنا وقد تقدم في الطهارة.
قال ابن السبكي: (6/ 322) لم أجد له إسناداً.
تكملة البحر الرائق: (كتاب الكراهية، غسل اليدين قبل الطعام، 208/8، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"ويستحب غسل اليدين قبل الطعام فإن فيه بركة، وفي البرهانية: والسنة أن يغسل الأيدي قبل الطعام وبعده".
الموسوعة الفقهية الكويتية: (32/35، ط: دار السلاسل)
رابعا: غسل الكفين قبل الأكل وبعده:ذهب جمهور الفقهاء إلى استحباب غسل الكفين قبل الأكل وبعده وإن كان على وضوء لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: من أحب أن يكثر الله خير بيته فليتوضأ إذا حضر غذاؤه وإذا رفع .وعنه صلى الله عليه وسلم: من بات وفي يده ريح غمر فأصابه شيء فلا يلومن إلا نفسه .قال العلماء: المراد بالوضوء في هذه الأحاديث هو غسل اليدين لا الوضوء الشرعي.وقال الصاوي من المالكية: غسل اليد قبل الطعام وإن لم يكن سنة عندنا فهو بدعة حسنة، أما بعد الأكل فيندب الغسل.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی