سوال:
حضرت مفتى صاحب وراثت کى شرعى تقسیم کے متعلق سوال عرض ہے: محمد راوت صاحب کى دو شادیاں تھیں، پہلى بیوى سے ایک بیٹا محمد حسن ہےاور ایک بیٹى عائشہ بى بى تھى، پہلى بیوى کے انتقال کے بعد اس کى بیٹى عائشہ بى بى کا بھى انتقال ہو گیاتھا، اس نے ایک مطلقہ خاتون سے نکاح کیاتھا، اس دوسرى بیوى سے کوئى اولاد نہیں ہوئى ہے، بس ایک لڑکا محمود جوپہلے شوہر سے تھا، وہ اپنے ساتھ لائى تھى، محمد راوت صاحب کے تین بھائى تھے، محمد راوت صاحب کى وفات سے پہلے دو بھائى فوت ہو چکے ہیں، البتہ محمد راوت کى وفات کے وقت ایک بھائى محمد افضل زندہ تھا، اس کے علاوہ دوسرى بیوى بھى محمد راوت کى وفات سے پہلے فوت ہو گئى تھى، نیز محمد راوت کى وفات کے وقت نہ ان کا والد زندہ تھا ،نہ والدہ نہ کوئى بہن، ایک بھائى محمد افضل زندہ تھا اور ایک بیٹا محمد حسن زندہ تھا۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ محمد راوت کے شرعى ورثاء کون کون ہوں گے اور ان میں وراثت کیسے تقسیم ہو گى۔ اس وقت محمد راوت کا بیٹا محمد حسن، محمد راوت کى دوسرى بیوى کا پہلے شوہر سے بیٹا محمود اور محمد راوت کا بھائى محمد افضل زندہ و موجود ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب: پوچھی گئی صورت میں مرحوم محمد راوت کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں نافذ کرنے کے بعد باقی تمام میراث کا حقدار محمد حسن ہوگا، جبکہ محمد افضل اور دوسری بیوی کے بیٹے محمود کو مرحوم راوت کی میراث میں کچھ حصہ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (774/6، ط: دار الفکر)
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی